يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَن يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنكُمْ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ
اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ نے جو احسان تم پر کیا ہے اسے یاد کرو جب ایک قوم نے تم پر دست درازی کرنی چاہی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں کو تم تک پہنچنے سے روک دیا (١) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور مومنوں کو اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
[٣٢] پہلا احسان تو مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ انہیں اسلام کی توفیق بخشی اور اسلام کی بدولت ان کی قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ ہوا، لڑائیاں ختم ہوئیں اور آپس میں تم بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے لگے دوسرا بڑا احسان یہ تھا کہ حدیبیہ کے مقام پر کافر یہ چاہتے تھے کہ تم پر حملہ آور ہو کر تمہیں صفحہ ہستی سے ناپید کردیں۔ لیکن اللہ نے ایسے حالات پیدا کردیئے کہ وہ اپنا ارادہ پورا نہ کرسکے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہوتا ہے۔ ١۔ حدیبیہ کے دن جنگ روکنا اللہ کا احسان تھا۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اہل مکہ کے اسی (٨٠) آدمی مسلح ہو کر تنعیم پہاڑ کی جانب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ آور ہوئے۔ وہ یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب غافل ہوں تو حملہ کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پکڑ کر قید کرلیا پھر انہیں چھوڑ دیا تو اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب ھوالذی کف ایدیکم عنھم) ٢۔ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرے چچا عامر نے قبیلہ عبلات کے ایک مکرز نامی شخص کو، جو ایک جھول پڑے ہوئے گھوڑے پر سوار اور ستر مشرکوں کا ساتھی تھا گھیر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مشرکوں کی طرف دیکھا پھر فرمایا: انہیں چھوڑ دو (عہد نامہ حدیبیہ کی بدعہدی کے) گناہ کی ابتدا بھی انہوں نے کی اور تکرار بھی انہی سے ہوئی۔ اسی سلسلہ میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد۔ باب غزوہ ذی قرد) اگرچہ مندرجہ بالا احادیث سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت صلح حدیبیہ یا اسی کے گرد و پیش حالات کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ تاہم دور نبوی میں کئی بار ایسے مواقع پیش آتے رہے کہ کبھی کفار مکہ نے جنگ کے ذریعہ اور کبھی یہودیوں نے سازشوں کے ذریعہ اسلام کو ختم کردینے کی کوششیں کیں۔ پھر کبھی تو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ مسلمانوں کو دشمنوں کی سازشوں سے مطلع فرما دیا۔ اور کبھی حالات ایسے پیدا کردیئے کہ کافروں کو حملہ آور ہونے کی جرأت ہی نہ ہوسکی۔