الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ
کل پاکیزہ چیزیں آج تمہارے لئے حلال کی گئیں اور اہل کتاب کا ذبیحہ تمہارے لئے حلال ہے (١) اور تمہارا ذبیحہ ان کے لئے حلال، اور پاکدامن مسلمان عورتیں اور جو لوگ تم سے پہلے کتاب دیئے گئے ان کی پاک دامن عورتیں بھی حلال ہیں (٢) جب کہ تم ان کے مہر ادا کرو، اس طرح کہ تم ان سے باقاعدہ نکاح کرو یہ نہیں کہ اعلانیہ زنا کرو یا پوشیدہ بدکاری کرو، منکرین ایمان کے اعمال ضائع اور اکارت ہیں اور آخرت میں وہ ہارنے والوں میں سے ہیں۔
[٢٤] اہل کتاب کا کھانا کن شرائط کے تحت حلال ہے؟:۔ اہل کتاب کا کھانا انہی شرائط کے تحت حلال ہے جو اوپر مذکور ہو چکیں۔ یعنی ذبیحہ پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، چیز پاکیزہ ہو اور ان کے دسترخوان پر کوئی حرام چیز مثلاً شراب یا سور کا گوشت وغیرہ نہ ہو۔ اور اگر ان کے دسترخوان پر ایسی اشیاء رہتی ہوں تو ان کے ساتھ کھانا تو درکنار ان کے برتن استعمال کرنا بھی جائز نہیں تاآنکہ انہیں خوب دھو کر پاک صاف کرلیا جائے اور یہ استعمال مجبوراً ہو۔ رہے غیر اہل کتاب تو نہ ان کا ذبیحہ کھانا جائز ہے اور نہ ان کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے۔ نیز جو جانور ذبح نہ کیے جائیں بلکہ آرے سے ان کا گلا کاٹ کر الگ کردیا جائے یا کسی اور طریقہ سے انہیں مارا جائے۔ یا ذبح کے وقت اللہ کا نام نہ لیا جائے تو ایسے جانور کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ دور نبوی میں یہودیوں اور عیسائیوں کا کم از کم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان ضرور تھا مگر آج کل اہل مغرب جن میں سے اکثر اپنے آپ کو عیسائی کہلاتے ہیں۔ یہ لوگ نیچری اور دہریہ قسم کے ہوتے ہیں یا دین سے بیزار ہوتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا کھانا کیسے مسلمانوں کے لیے جائز سمجھا جا سکتا ہے کیونکہ ان میں اور غیر اہل کتاب میں موجودہ دور میں کوئی فرق نہیں ہے۔ [٢٥] کتابیہ عورت کا نکاح :۔ کتابیہ عورتوں سے نکاح کی شرائط وہی ہیں جو مسلمان عورتوں کے لیے ہیں۔ یعنی نکاح کا مقصد محض شہوت رانی نہ ہو بلکہ مستقل بنیادوں پر ہو اور اس نکاح کا باقاعدہ اعلان ہو اور ان کے حق مہر انہیں ادا کردیئے جائیں۔ مگر کتابیہ عورت سے نکاح صرف اس صورت میں جائز ہوگا جب کسی فتنہ کا خطرہ نہ ہو۔ مثلاً ایک شخص اگر کسی خوبصورت کتابیہ عورت سے نکاح کے بعد اس کے دین کی طرف مائل ہوجائے تو ایسی صورت میں نکاح ہرگز جائز نہ ہوگا جیسا کہ اس آیت کے آخر میں الفاظ ﴿وَمَنْ یَّکْفُرْ بالْاِیْمَانِ ﴾ سے ظاہر ہوتا ہے اس خطرہ کے پیش نظر حتی الامکان کتابیہ عورتوں سے نکاح سے بچنا ہی بہتر ہے۔ اور اگر ایسی اضطراری حالت ہو کہ نکاح نہ کرنے سے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ ہو تو پھر نکاح کرلینے میں کوئی حرج نہیں۔