سورة النسآء - آیت 167

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَصَدُّوا عَن سَبِيلِ اللَّهِ قَدْ ضَلُّوا ضَلَالًا بَعِيدًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جن لوگوں نے کفر کیا اور اللہ تعالیٰ کی راہ سے اوروں کو روکا وہ یقیناً گمراہی میں دور نکل گئے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢٢] یعنی جس نے اللہ کی آیات کا انکار کیا اس نے اللہ کے علم کا بھی انکار کردیا اور اس کی گواہی کا بھی۔ پھر صرف خود ہی انکار نہ کیا بلکہ اس کی راہ میں روڑے بھی اٹکاتا رہا اور جو لوگ ایمان والے تھے ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کر کے ان کو راہ راست سے روکتا رہا یقیناً وہ بہت بڑی گمراہی میں پڑگیا ایسے لوگوں کے جرائم ناقابل معافی ہیں اور گمراہی اور جہنم کے علاوہ انہیں کوئی اور راہ سوجھتی ہی نہیں۔ یہود کا تحریف شدہ تورات پر اور اپنے اہل علم ہونے کا ناز :۔ یہود کی علمی ساکھ چونکہ اہل عرب کے ہاں مسلم تھی (اور وہ غیر یہود کو امی یا ان پڑھ یا جاہل کہا کرتے تھے۔) اس لیے ان کی ہر جائز اور ناجائز بات کو اہل عرب درخور اعتنا سمجھتے تھے اس علمی ساکھ سے یہود نے بہت ناجائز فائدے اٹھائے۔ اور جن باتوں سے وہ لوگوں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کرتے تھے ان کا ذکر اکثر مقامات پر گزر چکا ہے۔ منجملہ ایک یہ تھا کہ یہود یہ سمجھتے تھے کہ ان کی شریعت اور بالخصوص تورات تا قیامت ناقابل تنسیخ ہے اور اس کے احکام میں رد و بدل نہیں ہو سکتا۔ حالانکہ تورات پر جو تاریخی حادثے گزر چکے تھے اور دو بار تورات ان سے گم بھی ہوگئی تھی وہ انہیں معلوم تھا۔ پھر ان کے علماء کو بھی یہ علم تھا کہ تورات میں بہت سے الحاقی مضامین شامل کرلیے گئے ہیں اور بعض دفعہ خود علمائے یہود کو یہ الجھن پیش آ جاتی تھی اور وہ خود بھی یہ تمیز نہ کرسکتے تھے کہ ان میں سے کونسا اور کتنا مضمون الہامی ہے اور کتنا الحاقی ہے۔ پھر اس میں علمائے یہود حسب منشاء اور ضرورت تحریف بھی کر ڈالتے تھے لیکن ان سب باتوں کے باوجود وہ یہ سمجھتے تھے کہ جو تورات ان کے پاس موجود ہے۔ وہ ناقابل تغیر اور ناقابل تنسیخ ہے اور یہی بات وہ دوسروں کے ذہن نشین کرا کر انہیں اسلام لانے سے روکتے تھے۔ اور دوسرا ان کا زعم باطل یہ تھا کہ آنے والا نبی آخر الزمان انہی بنی اسرائیل میں سے آئے گا۔ حالانکہ اس کا ان کے پاس کوئی علمی ثبوت موجود نہ تھا۔ پھر جب وہ بنی اسماعیل میں مبعوث ہوگیا۔ تو ایک تو حسد کے مارے اس کا انکار کردیا اور کہا کہ ہم اہل علم ہو کر امیوں کے نبی پر کیسے ایمان لا سکتے ہیں؟ دوسرے اسی بنیاد پر وہ دوسرے لوگوں کو اسلام لانے سے روکتے تھے اور کہتے تھے کہ چونکہ یہ نبی علمی خاندان یعنی بنی اسرائیل سے تعلق نہیں رکھتا لہٰذا یہ سچا نبی نہیں ہو سکتا۔