وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُمْ عَلَيْكَ مِن قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُمْ عَلَيْكَ ۚ وَكَلَّمَ اللَّهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا
اور آپ سے پہلے کے بہت سے رسولوں کے واقعات ہم نے آپ سے بیان کئے ہیں (١) اور بہت کے رسولوں کے نہیں بھی کئے (٢) اور موسیٰ (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر کلام کیا (٣)
[٢١٨] وحی کو رسول تک پہنچانے کے دو طریقے تو اوپر حدیث نمبر ٢ میں بیان ہوچکے۔ تیسرا طریق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پردے کے پیچھے سے کسی رسول سے کلام کرے اور یہ فضیلت بالخصوص سیدنا موسیٰ کو عطا ہوئی۔ اس لیے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا خاص طور پر ذکر کیا گیا۔ البتہ معراج کے موقعہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی عطا ہوئی تھی۔ اور ان تینوں صورتوں کا ذکر قرآن کریم میں سورۃ شوریٰ کی آیت نمبر ٥١ میں بھی مذکور ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی نبوت و رسالت کا آغاز ہی ایسی وحی سے ہوا جس میں اللہ تعالیٰ سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے ہم کلام ہوئے تھے اور یہ آواز ایک درخت کے پیچھے سے آ رہی تھی (تفصیل آگے سورۃ ق میں آئے گی) پھر اس کے بعد بھی کوہ طور پہ ہم کلامی نصیب ہوئی اسی لیے موسیٰ کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے۔