فَبِمَا نَقْضِهِم مِّيثَاقَهُمْ وَكُفْرِهِم بِآيَاتِ اللَّهِ وَقَتْلِهِمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَوْلِهِمْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ ۚ بَلْ طَبَعَ اللَّهُ عَلَيْهَا بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا
(یہ سزا تھی) یہ سبب ان کی عہد شکنی کے اور احکام الٰہی کے ساتھ کفر کرنے کے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کر ڈالنے کے (١) اور اس سبب سے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر غلاف ہے۔ حالانکہ دراصل ان کے کفر کی وجہ سے ان کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر لگا دی ہے۔ اس لئے یہ قدر قلیل ہی ایمان لاتے ہیں۔
[٢٠٥] قوم موسیٰ ٰکی نافرمانیاں :۔ ان آیات میں یہ بتایا جا رہا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام پر تورات کی تختیاں جو نازل ہوئی تھیں تو ان پر تمہارا ایمان کس قسم کا تھا۔ جواب اس نبی سے ایسی ہی آسمان سے نازل شدہ تحریر کا مطالبہ کر رہے ہو۔ ہم نے ان الواح تورات پر عمل کرنے کا عہدا گر لیا تو تم پر پہاڑ کو اوندھا کرلیا ورنہ تم اتنے سرکش لوگ ہو کہ ان احکام کی پابندی کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ اس کے بعد بھی تم نے ہر ہر حکم کی خلاف ورزی کی۔ تمہیں حکم تھا کہ شہر اریحا کی فتح کے بعد شہر کے دروازہ سے سجدہ ریز ہو کر اور عاجزی کرتے ہوئے داخل ہونا لیکن تم سرینوں کے بل اکڑتے ہوئے اور مادہ پرستانہ ذہن کے ساتھ گندم گندم پکارتے ہوئے داخل ہوئے۔ تم نے ہمارے حکم کے علی الرغم ہفتہ کے دن میں بھی مکر و فریب سے مچھلیوں کا شکار کیا۔ اسی طرح اللہ کی بہت سی آیات کا انکار کیا۔ اپنے کیے ہوئے پختہ عہدوں کو توڑا اور سب سے بڑھ کر یہ ظلم کیا کہ انبیاء کی اطاعت کے بجائے انہیں ناحق قتل کرتے رہے۔ کیا تورات پر ایمان لانے کے یہی انداز ہیں؟ [٢٠٦] دلوں کا پردہ میں محفوظ ہونا :۔ پھر جب انہیں کوئی ہدایت کی بات سنائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہمارے دل اس قدر محفوظ ہیں کہ ہمارے عقائد و نظریات میں کوئی بات بھی نہ داخل ہو سکتی ہے اور نہ اثر انداز ہو سکتی ہے جبکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ ان کی انہی نافرمانیوں اور عہد شکنیوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر بدبختی اتنی زیادہ چھا چکی ہے کہ اب کوئی بھی ہدایت کی بات ان پر بے اثر ثابت ہوتی ہے اور یہ لوگ اس قدر کج فہم ہوچکے ہیں کہ اپنی اس بدبختی کو بھی اپنی خوبی کے انداز میں پیش کر رہے ہیں۔