سورة الناس - آیت 6

مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

(خواہ) وہ جن میں سے ہو یا انسان میں سے (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣] شیطان کا انسان نفس بھی ہوسکتا ہے جو وسوسے ڈالتا ہے :۔ اَلجِنَّۃُ: انسان کے علاوہ دوسری مکلف مخلوق جن ّ ہے۔ جنوں میں سے کچھ نیک اور صالح بھی ہوتے ہیں اور کچھ خبیث، موذی اور بدکردار بھی۔ اس دوسری قسم کو شیطان کہتے ہیں۔ پھر شیطان کے لفظ کا اطلاق ہر موذی چیز، سرکش اور نافرمان پر بھی ہونے لگا خواہ انسان ہو یا جن یا کوئی جانور۔ مثلاً سانپ کو اس کی ایذا دہی کی وجہ سے شیطان اور جن ّاور جانّ (٢٧: ١٠) کہتے ہیں۔ پھر یہ شیطان یا خناس صرف جن اور انسان ہی نہیں ہوتے بلکہ انسان کا اپنا نفس بھی وسوسہ اندازی کرتا رہتا ہے۔ جیسے فرمایا : ﴿وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ ﴾ (٥٠: ١٦) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دفعہ مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھے تھے کہ رات کو آپ کی زوجہ محترمہ صفیہ بنت حیی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ملنے کے لیے آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں الوداع کرنے کے لیے ساتھ گئے۔ رستہ میں دو انصاری آدمی ملے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا کہ یہ میری بیوی صفیہ بنت حیی ہے۔ وہ کہنے لگے۔ ''سبحان اللہ'' (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کون شک کرسکتا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ”انَّ الشَّیْطَانَ یِجْرِیْ مِنْ ابْنِ اٰدَمَ مَجْرَی الدَّمِ“ (بخاری، کتاب الاحکام۔ باب الشھادۃ تکون عند الحاکم۔۔) یعنی شیطان ہر انسان میں خون کی طرح دوڑتا پھرتا ہے۔ اس حدیث کی رو سے بھی انسان کے اپنے نفس کو بھی شیطان کہا گیا ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطبہ مسنونہ کے یہ مشہور و معروف الفاظ ہیں۔ ''وَنَعُوْذُ باللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ أنْفُسِنَا" یعنی ہم اپنے نفوس کی شرارتوں اور وسوسوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں۔ معوذات سے دم جھاڑ کرنا مسنون ہے :۔ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کو معوذتین کہتے ہیں اور اگر ان کے ساتھ سورۃ اخلاص کو بھی ملا لیا جائے تو انہیں معوذات کہتے ہیں۔ اور آپ کا معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ سورتیں پڑھ کر پہلے اپنے ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھوں کو چہرہ اور جسم پر پھیرا کرتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے بھی واضح ہوتا ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی مرض الموت میں معوذات پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیماری میں شدت ہوئی تو میں معوذات پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پھونکتی اور اپنے ہاتھ کے بجائے برکت کی خاطر آپ ہی کا ہاتھ آپ کے جسم پر پھراتی۔ معمر نے کہا : میں نے زہری سے پوچھا (یہ دونوں اس حدیث کی سند کے راوی ہیں) کہ کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا : دونوں ہاتھوں پر دم کرکے ان کو منہ پر پھیرتے (بخاری۔ کتاب الطب و المرضیٰ۔ باب الرقی بالقرآن والمعوذات) تعویذ لکھ کر پلانا یا لٹکانا سب ناجائز اور بدعت ہے :۔ واضح رہے کہ دم جھاڑ کے سلسلے میں مسنون طریقہ یہی ہے کہ قرآن کی کوئی آیت یا آیات یا مسنون دعائیں پڑھ کر مریض پر دم کردیا جائے۔ اس کے علاوہ جتنے طریقے آج کل رائج ہیں۔ مثلاً کچھ عبارت لکھ کر یا خانے بناکر اس میں ہندسے لکھ کر اس کا تعویذ بنا کر گلے میں لٹکانا۔ یا گھول کر پانی پلانا یا بازو یا ران پر باندھنا سب ناجائز ہیں۔ بلکہ اگر قرآنی آیات یا مسنون دعائیں بھی لکھی جائیں جن میں شرک کا شائبہ تک نہ ہو تب بھی یہ خلاف سنت، بدعت اور ناجائز ہیں۔ اور ہم انہیں بدعت اور ناجائز اس لیے کہتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرح تعویذ لکھنے لکھوانے کو اچھا سمجھتے تو اس دور میں بھی لکھوا سکتے تھے اور اس میں کوئی امر مانع نہ تھا۔ لہٰذا ایسے سب طریقے ناجائز اور خلاف سنت ہیں اور بدعت کی تعریف میں آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے چوتھی جلد تمام ہوئی اور قرآن مجید کی یہ تفسیر ’’ تسیر القرآن‘‘مکمل ہوئی