وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ
اور گرہ (لگا کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (بھی) (١)
[٥] آپ پر جادو :۔ گرہ میں پھونکیں مارنے کا کام عموماً جادوگر کیا کرتے ہیں اور جو لوگ بھی موم کے پتلے بنا کر اس میں سوئیاں چبھوتے ہیں اور کسی کے بال حاصل کرکے ان میں گرہیں لگاتے اور پھونکیں مارتے جاتے ہیں سب جادوگروں کے حکم میں داخل ہیں۔ اور ہمارے ہاں ایسے لوگوں کو جادوگر نہیں عامل کہا جاتا ہے۔ اور جادو کرنا صریحاً کفر کا کام ہے۔ جیسے سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٠٢ میں یہ صراحت موجود ہے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جادو چونکہ کفر کا کام ہے۔ اس لیے جادو کا اثر کسی ایماندار یا مومن پر نہیں ہوسکتا۔ اور چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بھی جادو کیا گیا تھا اور اس جادو کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت پر اثر بھی ہوگیا تھا۔ اور یہ بات اتنی احادیث صحیحہ میں مذکور ہے جو حد تواتر کو پہنچتی ہیں لہٰذا یہ حضرات اپنے اس نظریہ کے مطابق ایسی تمام احادیث کا انکار کردیتے ہیں۔ لہٰذا ہم پہلے یہاں بخاری سے ایک حدیث درج کرتے ہیں پھر ان کے اعتراضات کا جائزہ پیش کریں گے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صلح حدیبیہ سے واپس لوٹے تو آپ پر جادو کیا گیا جس کا اثر یہ ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلوم ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ کر نہیں رہے ہوتے تھے۔ آخر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک روز دعا کی (کہ اللہ اس جادو کا اثر زائل کردے) پھر فرمانے لگے : عائشہ رضی اللہ عنہا ! تجھے معلوم ہوا کہ اللہ نے مجھے وہ تدبیر بتا دی جس سے مجھے اس تکلیف سے شفا ہوجائے۔ ہوا یہ کہ (خواب میں) دو آدمی میرے پاس آئے۔ ایک میرے سرہانے بیٹھ گیا اور دوسرا پائنتی کی طرف۔ ایک شخص نے دوسرے سے پوچھا :’’اس شخص کو کیا تکلیف ہے؟‘‘ دوسرے نے کہا ’’اس پر جادو کیا گیا ہے‘‘ پہلے نے پوچھا :’’کس نے جادو کیا ہے؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا :’’لبید بن اعصم (یہودی) نے‘‘ پہلے نے پوچھا : ’’کس چیز میں جادو کیا؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا۔ ’’کنگھی اور آپ کے بالوں اور نر کھجور کے خوشے کے پوست میں‘‘ پہلے نے پوچھا : ’’یہ کہاں رکھا ہے؟‘‘ دوسرے نے جواب دیا :’’ذروان کے کنوئیں میں‘‘ غرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کنوئیں پر تشریف لے گئے جب وہاں سے پلٹے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاسے فرمایا : ’’اس کنوئیں کے درخت ایسے ڈراؤنے ہوگئے تھے جیسے ناگوں کے پھن ہوں‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا :’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ نے اس کو (یعنی جادو کے سامان کو) نکالا کیوں نہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے اللہ نے اچھا کردیا۔ اب میں نے یہ مناسب نہ سمجھا کہ لوگوں میں ایک جھگڑا کھڑا کر دوں‘‘ پھر وہ کنواں مٹی ڈال کر بھر دیا گیا۔ (بخاری۔ کتاب بدء الخلق باب صفۃ ابلیس وجنودہ) اور بخاری کی دوسری روایت جو کتاب الادب میں مذکور ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکیلے نہیں بلکہ چند صحابہ کے ساتھ اس کنوئیں پر گئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ جادو کی اشیاء کنوئیں سے نکلوائی تھیں نیز یہ کہ اس کنوئیں کا پانی جادو کے اثر سے مہندی کے رنگ جیسا سرخ ہوگیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب الادب، باب ان اللہ یامر بالعدل والا حسان) اور بعض دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ (١) لبید بن اعصم ایک ماہر جادو گر تھا۔ ٢۔ لبید کی دو لڑکیاں بھی جادوگری کے فن میں ماہر تھیں۔ ان لڑکیوں نے ہی کسی طریقہ سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے بال حاصل کرکے ان میں گرہیں لگائی تھیں۔ ٣۔ ذروان کنوئیں سے جو اشیاء برآمد کی گئیں۔ ان میں کنگھی اور بالوں میں ایک تانت کے اندر گیارہ گرہیں پڑی ہوئی تھیں۔ اور ایک موم کا پتلا تھا جس میں سوئیاں چبھوئی ہوئی تھیں۔ جبریل نے آکر بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معوذتین پڑھیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک آیت پڑھتے جاتے اور اس کے ساتھ ایک ایک گرہ کھولی جاتی اور پتلے میں سے ایک ایک سوئی نکالی جاتی رہی۔ خاتمہ تک پہنچتے ہی ساری گرہیں کھل گئیں کیونکہ ان دونوں سورتوں کی گیارہ ہی آیات ہیں۔ اور ساری سوئیاں نکل گئیں اور آپ جادو کے اثر سے نکل کر یوں آزاد ہوگئے جیسے کوئی بندھا ہوا شخص کھل گیا ہو۔ ٤۔ لبید بن اعصم کو پوچھا گیا تو اس نے اپنے جرم کا اعتراف کرلیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے چھوڑ دیا۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے انتقام نہیں لیا۔ ان احادیث پر پہلا اعتراض یہ ہے کہ نبی پر جادو نہیں ہوسکتا یعنی اگر کوئی کرے بھی تو اس کا اثر نہیں ہوتا۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ نبی پر جادو کا اثر ہونا قرآن سے ثابت ہے۔ فرعون کے جادوگروں نے جب ہزارہا لوگوں کے مجمع میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور وہ سانپ بن کر دوڑنے لگیں تو اس دہشت کا اثر موسیٰ علیہ السلام کے دل پر ہوگیا تھا۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔﴿ فَأَوْجَسَ فِي نَفْسِهِ خِيفَةً مُّوسَىٰ قُلْنَا لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنتَ الْأَعْلیٰ ﴾ موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں ڈر گئے تو ہم نے (بذریعہ وحی) کہا : موسیٰ ڈرو نہیں، تم ہی غالب رہو گے۔ چند اعتراضات اور ان کے جواب :۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر نبی پر جادو کا اثر تسلیم کرلیا جائے تو شریعت ساری کی ساری ناقابل اعتماد ٹھہرتی ہے۔ کیا معلوم کہ نبی کا فلاں کام وحی کے تحت ہوا تھا یا جادو کے زیر اثر؟ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ ٧ ھ میں (جنگ خیبر اور صلح حدیبیہ کے بعد) پیش آیا۔ جبکہ یہودی ہر میدان میں پٹ چکے تھے۔ پہلے خیبر کے یہودی ایک سال جادو کرتے رہے جس کا خاک اثر نہ ہوا۔ پھر وہ مدینہ میں لبید بن اعصم کے پاس آئے جو سب سے بڑا جادوگر تھا اور اس کی بیٹیاں اس سے بھی دو ہاتھ آگے تھیں۔ انہوں نے بڑا سخت قسم کا جادو کیا۔ اس کا بھی چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کچھ اثر نہ ہوا۔ بعد میں اس کے اثرات نمایاں ہونے شروع ہوئے۔ تاہم اس کا اثر محض آپ کے ذاتی افعال تک محدود تھا۔ یعنی آپ یہ سوچتے کہ میں فلاں کام کرچکا ہوں جبکہ کیا نہیں ہوتا تھا۔ یہ ذہنی کوفت آپ کو چالیس دن تک رہی۔ بعد میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حقیقت حال سے آگاہ کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شفایاب ہوگئے۔ اب دیکھیے یہ بات واضح ہے کہ اس وقت تک قرآن نصف سے زیادہ نازل ہوچکا تھا۔ اہل عرب اس وقت دو گروہوں میں بٹ چکے تھے۔ ایک مسلمان اور ان کے حلیف، دوسرے مسلمانوں کے مخالفین، اگر اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کا اثر شریعت میں اثر انداز ہوتا، یعنی کبھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز ہی نہ پڑھاتے۔ یا ایک کے بجائے دو بار پڑھا دیتے یا قرآن کی آیات خلط ملط کرکے یا غلط سلط پڑھ دیتے یا کوئی اور کام منزل من اللہ شریعت کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرزد ہوجاتا تو دوست و دشمن سب میں یعنی پورے عرب میں اس کی دھوم مچ جاتی۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں ایک بھی ایسی روایت نہیں ملتی جس میں یہ اشارہ تک بھی پایا جاتا ہو کہ اس اثر سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرعی اعمال و افعال میں کبھی حرج واقع ہوا ہو۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ کفار کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ انبیاء کو یا تو جادو گر کہتے تھے اور یا جادو زدہ (مسحور) اب اگر ہم خود ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو اور اس کی اثر پذیری تسلیم کرلیں تو گویا ہم بھی کفار کے ہم نوا بن گئے۔ یہ اعتراض اس لیے غلط ہے کہ کفار کا الزام یہ ہوتا تھا کہ نبی نے اپنی نبوت کے دعویٰ کا آغاز ہی جادو کے اثر کے تحت کیا ہے اور جو کچھ یہ قیامت، آخرت، حشرو نشر اور جنت و دوزخ کے افسانے سناتا ہے۔ یہ سب کچھ جادو کا اثر یا پاگل پن کی باتیں ہیں۔ گویا وہ نبوت اور شریعت کی تمام تر عمارت کی بنیاد جادو قرار دیتے تھے لیکن یہاں معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بیس سال بعد پیش آتا ہے جبکہ آدھا عرب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت اور احکام شریعت کے منزل من اللہ ہونے پر ایمان رکھتا تھا۔ پھر یہ واقعہ احکام شریعت پر چنداں اثر انداز بھی نہیں ہوا البتہ اس واقعہ سے اس کے برعکس یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے۔ کہ آپ ہرگز جادوگر نہ تھے۔ کیونکہ جادوگر پر جادو کا اثر نہیں ہوتا۔