سورة الاخلاص - آیت 3

لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نہ اس سے کوئی پیدا ہوا اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤] اللہ کی اولاد قرار دینے والے فرقے :۔ انسان نے جب بھی اپنے طور پر اللہ تعالیٰ کی ذات کے متعلق سوچا ہے تو اسے انسانی سطح پر لا کر ہی سوچا ہے اور چونکہ انسان اولاد کا خواہشمند ہوتا ہے۔ اس لیے انسان نے اللہ کی بھی اولاد قرار دے دی۔ حالانکہ جو چیز پیدا ہوتی ہے اس کا مرنا اور فنا ہونا بھی ضروری ہے۔ اور جو چیز مرنے والی یا فنا ہونے والی ہو وہ کبھی خدا نہیں ہوسکتی۔ نیز انسان کو اولاد کی خواہش اور ضرورت اس لیے ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قائم مقام بنے اور اس کی میراث سنبھالے جبکہ اللہ کو ایسی باتوں کی کوئی احتیاج نہیں۔ وہ حی لایموت ہے، اسی خیال سے عیسائیوں نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اور یہود نے سیدنا عزیر کو اللہ کا بیٹا بنا دیا۔ مشرکین عرب فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ اور یونانی، مصری اور ہندی تہذیبوں نے کروڑوں کی تعداد میں دیوی اور دیوتا بنا ڈالے۔ کوئی دیوی ایسی نہ تھی جس کا انہوں نے کوئی دیوتا شوہر نہ تجویز کیا ہو۔ اور کوئی دیوتا ایسا نہ تھا جس کے لیے انہوں نے کوئی دیوی بیوی کے طور پر تجویز نہ کی ہو۔ پھر ان میں توالد و تناسل کا سلسلہ چلا کر کروڑوں خدا بناڈالے۔ یہ بھی غنیمت ہی سمجھئے کہ کسی قوم نے کسی کو اللہ کا باپ نہیں بنا ڈالا۔ ورنہ ایسے مشرکوں سے کیا بعید تھا کہ وہ ایسی بکواس بھی کر ڈالتے۔ اس آیت سے ایسے توہمات کی تردید ہوجاتی ہے۔ اللہ کی اولاد قرار دینا اتنا شدید جرم ہے کہ قرآن میں متعدد مقامات پر اس کی شدید مذمت وارد ہوئی ہے۔ نیز درج ذیل حدیث بھی اس جرم پر پوری روشنی ڈالتی ہے۔ اللہ کی اولاد قرار دینا اسے گالی دینے کے مترادف ہے :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بنی آدم نے مجھے جھٹلایا اور یہ اسے مناسب نہ تھا اور مجھے گالی دی اور یہ اسے مناسب نہ تھا۔ اس کا مجھے جھٹلانے کا مطلب یہ ہے کہ جو وہ یہ کہتا ہے کہ میں اسے دوبارہ ہرگز پیدا نہ کروں گا حالانکہ دوبارہ پیدا کرنا پہلی بار پیدا کرنے سے زیادہ مشکل نہیں ہے اور اس کا مجھے گالی دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اولاد ہے حالانکہ میں اکیلا ہوں، بے نیاز ہوں، نہ میری کوئی اولاد ہے اور نہ میں کسی کی اولاد ہوں اور میرے جوڑ کا تو کوئی دوسرا ہے ہی نہیں۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)