سورة الہب - آیت 1

تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ (خود) ہلاک ہوگیا (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] ابو لہب کا تعارف :۔ ابو لہب کا اصل نام عبدالعزیٰ تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سب سے بڑا حقیقی چچا تھا۔ نہایت ہی حسین و جمیل تھا۔ رنگ سیب کی طرح دمکتا تھا۔ اسی وجہ سے اس کی کنیت ابو لہب ہوئی۔ مالدار تھا مگر طبعاً بخیل تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کی خبر اسے اس کی لونڈی ثویبہ نے دی تو اس خوشی میں اس نے ثویبہ کو آزاد کردیا۔ (بخاری۔ کتاب النکاح۔ باب امھاتکم الٰتی ارضعنکم) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے والد تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت سے پیشتر ہی وفات پاچکے تھے۔ بڑا چچا ہونے کی حیثیت سے اپنے آپ کو باپ کا قائم مقام سمجھ کر اس نے اپنی طبیعت کے خلاف اس خوشی کا اظہار کیا تھا یا اسے کرنا پڑا تھا۔ یہ اس کے بخل ہی کا نتیجہ تھا کہ جب آپ کے دادا عبدالمطلب فوت ہونے لگے تو انہوں نے آپ کی کفالت (اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عمر آٹھ برس تھی) ابو لہب کے بجائے ابو طالب کے سپرد کی جو مالی لحاظ سے ابو لہب کی نسبت بہت کمزور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے بعد تین سال تک اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا کام نہایت خفیہ طور پر ہوتا رہا۔ پھر جب یہ حکم نازل ہوا۔ ﴿ وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ﴾ اپنے قریبی کنبہ والوں کو (اللہ کے عذاب سے) ڈراؤ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حکم کی تعمیل میں بنوہاشم اور بنو عبدالمطلب کو اپنے ہاں کھانے پر بلایا۔ کل ٤٥ آدمی جمع ہوئے۔ ابولہب کی مخالفت :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سامنے لا الٰہ الا اللّٰہ کی دعوت پیش کی تو ابو لہب جھٹ سے بول اٹھا : دیکھو! یہ سب حضرات تمہارے چچا یا چچازاد بھائی ہیں۔ نادانی چھوڑ دو اور یہ سمجھ لو کہ تمہارا خاندان سارے عرب کے مقابلہ کی تاب نہیں رکھتا۔ اور میں سب سے زیادہ حقدار ہوں کہ تمہیں پکڑ لوں۔ بس تمہارے لیے تمہارے باپ کا خانوادہ ہی کافی ہے۔ اور اگر تم اپنی بات پر اڑے رہے اور عرب کے سارے قبائل تم پر ٹوٹ پڑے تو ایسی صورت میں تم سے زیادہ اور کون شخص اپنے خاندان کے لیے شر اور تباہی کا باعث بن سکتا ہے۔ ابو لہب کی یہ تلخ اور ترش باتیں سننے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی اختیار کرلی اور دوسرے لوگ بھی اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے۔ ابوطالب کی حمایت :۔ چند دن بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دوبارہ اپنے قرابتداروں کو مدعو کرکے اپنی دعوت ذرا کھل کر پیش کی۔ جس کے نتیجہ میں آپ کے چھوٹے چچا ابوطالب نے کھل کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کا اعلان کردیا مگر ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ میں ذاتی طور پر عبدالمطلب کا دین چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ابو طالب کی اس حمیت کے جواب میں ابو لہب کہنے لگا:’’خدا کی قسم! یہ (یعنی دعوت توحید) برائی ہے۔ لہٰذا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ دوسروں سے پہلے تم خود ہی پکڑ لو‘‘ اس کے جواب میں ابو طالب نے کہا: ’’اللہ کی قسم! جب تک جان میں جان ہے ہم اس کی حفاظت کرتے رہیں گے‘‘ اس دوسری دعوت کا اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یقین ہوگیا کہ معززین بنوہاشم میں کم از کم ایک آدمی (یعنی ابو طالب) ایسا ہے جس کی حمایت پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ کوہ صفا پر دشمنوں کا اعتراف :۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تیسرا جرأت مندانہ قدم اٹھایا۔ ایک دن آپ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور ایک فریادی کی طرح وا صباحاہ کی آواز لگائی اور قریش کے ایک ایک قبیلے کا نام لے کر پکارا اور کہا اے بنی فہر، اے بنی عدی، اے بنی کعب وغیرہ وغیرہ۔ حتیٰ کہ سب قبائل کے قابل ذکر اشخاص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس اکٹھے ہوگئے اور جو نہ پہنچ سکا اس نے اپنا نمائندہ بھیج دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک اونچی جگہ پر کھڑے ہوگئے اور لوگوں سے پوچھا : اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑی کے اس پار ایک لشکر جمع ہو رہا ہے جو تم پر حملہ کرنے والا ہے تو کیا تم میری بات مان لو گے؟ سب نے یک زبان ہو کر کہا : ''ہاں''! اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ہمارا ہمیشہ سچ ہی کا تجربہ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھا تو سن لو کہ میں تمہیں ایک سخت عذاب سے خبردار کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں لہٰذا تم اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ۔ میں تمہیں اللہ سے بچانے کا کچھ اختیار نہیں رکھتا۔ ابولہب کی برہمی :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ابھی اتنا ہی کہہ پائے تھے کہ ابو لہب یکدم بھڑک اٹھا اور کہنے لگا تَبًّا لَکَ سَائِرَ الْیَوْمِ اَلِھٰذَا جَمَعْتَنَا (سارا دن تم پر ہلاکت ہو کیا اس بات کے لیے تو نے ہمیں جمع کیا تھا) (بخاری۔ کتاب التفسیر) اگرچہ ابو لہب کی اس بدتمیزی کی وجہ سے یہ اجتماع کچھ نتیجہ خیز ثابت نہ ہوا تاہم اس کا یہ فائدہ ضرور ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حسب ِ ارشاد باری اپنے پورے قبیلے کو اپنی دعوت سے آگاہ کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پکار مکہ کے ایک ایک فرد تک پہنچ گئی اور ابو لہب کی بدخلقی اور گستاخی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔ ابولہب کا ہی قرآن نے کیوں نام لیا ؟ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کے دشمن تو اور بھی بہت تھے، بلکہ ابو لہب سے بھی زیادہ تھے۔ تو ان تمام دشمنوں میں صرف ابو لہب کا ہی قرآن میں کیوں نام لے کر ذکر کیا گیا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ درج ذیل دو وجوہ کی بنا پر ابو لہب کا جرم واقعی اتنا شدید جرم تھا کہ قرآن میں اس کا نام لے کر اس کی مذمت کی گئی۔ پہلی وجہ یہ تھی کہ عرب میں کوئی باقاعدہ حکومت تو تھی نہیں، جہاں فریاد کی جاسکے۔ لے دے کر ایک قبائلی حمیت ہی وہ چیز تھی جو ایسے اوقات میں کام آتی تھی۔ مظلوم شخص فوراً اپنے قبیلے کو دادرسی کے لیے پکارتا اور پورا قبیلہ اس کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوتا۔ اس لیے ان کو اضطراراً بھی صلہ رحمی کا لحاظ رکھنا پڑتا تھا۔ ابو لہب ہی وہ واحد بدبخت شخص ہے جس نے اس دور کے واجب الاحترام قانون کو توڑ کر اپنے قبیلہ کے علی الرغم ڈٹ کر آپ کی مخالفت کی۔ علاوہ ازیں جب بنوہاشم اور بنو مطلب کو معاشرتی بائیکاٹ کی وجہ سے شعب ابی طالب میں محصور ہونا پڑا تھا تو اس وقت بھی ابو لہب نے اپنے قبیلے کا ساتھ نہیں دیا تھا اور یہ تو واضح ہے کہ شعب ابی طالب کے محصورین میں بہت سے ایسے لوگ بھی شامل تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں لائے تھے تاہم قبائلی حمیت کی بنا پر انہوں نے سب کچھ گوارا کیا تھا اور اس قانون کے احترام کا حق ادا کیا۔ حد یہ ہے کہ آپ کے چھوٹے چچا ابو طالب نے آپ کی حفاظت کے لیے زندگی بھر قریش مکہ کی مخالفت مول لی۔ حالانکہ آخری دم تک وہ ایمان نہیں لائے تھے۔ (بخاری، کتاب التفسیر زیر آیت﴿ اِنَّکَ لَا تَہْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ ﴾) اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اس قبائلی معاشرہ میں چچا کو بھی باپ کا درجہ حاصل تھا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ حقیقی والد فوت ہوچکا ہو۔ اس لحاظ سے بھی ابو لہب کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت کا فریضہ بطریق احسن بجا لانا چاہئے تھا خواہ وہ ایمان لاتا یا نہ لاتا۔ مگر وہ آپ کی حفاظت کی بجائے بغض و عناد میں اتنا آگے نکل گیا کہ اس کا شمار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صف اول کے دشمنوں میں ہوتا ہے۔ اس نے کوہ صفا پر جس بدخلقی اور گستاخی کا مظاہرہ کیا اس پر آپ کے خاموش رہنے کی وجہ بھی یہی تھی کہ معاشرتی سطح پر ابو لہب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باپ کے مقام پر تھا اور باپ ہونے کے ادب کا تقاضا یہی تھا کہ آپ خاموش رہتے۔ لہٰذا اس کی اس بدتمیزی کا جواب خود اللہ تعالیٰ نے اس کا نام لے کر دے دیا۔ واضح رہے کہ ﴿تَبَّتْ یَدَا اَبِیْ لَھبٍ﴾ سے یہ مراد نہیں کہ جسمانی لحاظ سے ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں بلکہ یہ بددعا کی قسم کے کلمات ہیں جو ناراضگی اور خفگی کے موقع پر بولے جاتے ہیں۔ اور ایسے الفاظ صرف عربی میں نہیں۔ ہر زبان میں پائے جاتے ہیں۔