سورة النصر - آیت 3

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ ۚ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تو اپنے رب کی تسبیح کرنے لگ حمد کے ساتھ اور اس سے مغفرت کی دعا مانگ، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣] آپ کی وفات کی طرف اشارہ :۔ یہ سورت سب سے آخری نازل ہونے والی مکمل سورت ہے۔ (مسلم، کتاب التفسیر) اور یہ ١٠ ھ میں حجۃ الوداع کے موقع پر منیٰ میں نازل ہوئی۔ اس کے بعد چند متفرق آیات نازل ہوئیں جیسے ﴿الْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ﴾ (۳:۵) وغیرہ مگر مکمل کوئی سورت نازل نہیں ہوئی اور یہ آیت بھی اسی موقع پر نازل ہوئی تھی۔ اس سورت سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سمجھ لیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کا مقصد پورا ہوچکا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عنقریب اس دنیا سے رخصت ہونے والے ہیں۔ چنانچہ اسی سال حجۃ الوداع کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو عظیم الشان خطبہ ارشاد فرمایا اس میں یہ کہہ کر کہ :’’شاید آئندہ سال تم میں موجود نہ ہوں گا‘‘ اس بات کی طرف واضح اشارہ کردیا تھا، اور سمجھدار صحابہ بھی اس سورت سے یہی کچھ سمجھتے تھے جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ مجھے (اپنی مجلس مشاورت میں) بزرگ بدری صحابہ کے ساتھ بلالیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم کو یہ بات ناگوار گزری اور کہنے لگے :’’آپ اسے ہمارے ساتھ بلالیتے ہیں جبکہ ہمارے بیٹے اس جیسے ہیں‘‘ سیدنا عمر نے جواب دیا : ’’اس کی وجہ تم جانتے ہو‘‘ چنانچہ ایک دن سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بھی بزرگ صحابہ کے ساتھ بلا لیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس دن آپ نے مجھے صرف اس لیے بلایا کہ انہیں کچھ دکھائیں۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ :’’اللہ تعالیٰ کے قول ﴿اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللّٰہِ وَالْفَتْحُ﴾سے تم کیا سمجھتے ہو؟‘‘ بعض لوگوں نے کہا : ’’اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہمیں فتح حاصل ہو تو ہمیں چاہیے کہ اللہ کی تعریف کریں اور اس سے بخشش چاہیں‘‘ اور بعض خاموش رہے اور کچھ جواب نہ دیا۔ پھر مجھے پوچھا گیا : ’’کیا تمہارا بھی یہی خیال ہے؟‘‘ میں نے کہا: ''نہیں'' کہنے لگے :’’پھر تم کیا کہتے ہو؟‘‘ میں نے کہا : اس سورت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی طرف اشارہ ہے جس سے اللہ نے اپنے رسول کو آگاہ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جب اللہ کی مدد آپہنچی اور مکہ فتح ہوگیا اور یہی تمہاری وفات کی علامت ہے۔ سو اب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی تعریف کیجیے، اس سے بخشش مانگیے وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے :’’میں بھی اس سے وہی کچھ سمجھاہوں جو تم کہہ رہے ہو‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت کی گئی ہے کہ اپنے پروردگار کے اتنے بڑے احسانات کے شکریہ کے طور پر اب پہلے سے زیادہ اللہ کی تسبیح و تحمید کیا کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بھر کی کاوشوں میں جو کوئی لغزش رہ گئی ہو تو اس کے لیے اللہ سے استغفار کریں۔ چنانچہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب سورت نصر نازل ہوئی تو اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رکوع اور سجدہ میں اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔ ''سُبْحٰنَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ'' (بخاری، کتاب التفسیر۔ تفسیر سورۃ النصر)