سورة الكافرون - آیت 2

لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

نہ میں عبادت کرتا ہوں اس کی جس کی تم عبادت کرتے ہو۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] کفار مکہ کی ایک خطرناک چال' حق وباطل میں سمجھوتہ :۔ اس سورت میں ان کافروں سے خطاب ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ﴿وَلَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّکُفْرًا ﴾ (بخاری۔ کتاب التفسیر۔ سورۃ الکافرون) جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت سے مکہ میں کچھ لوگ مسلمان ہوگئے تو کفار مکہ کو ابتدائ ً اسلام اور کفر میں سمجھوتے کی سوجھی اور اس کے لیے کئی راہیں اختیار کی گئیں۔ کبھی لالچ کا راستہ اور کبھی دھمکی اور دھونس کا راستہ۔ حتیٰ کہ ایک دفعہ کفار نے یہاں تک پیش کش کردی کہ آپ چاہو تو ہم آپ کے قدموں میں مال و دولت کے انبار لگا دیتے ہیں۔ حکومت چاہو تو وہ بھی حاضر ہے۔ کسی مالدار اور حسین لڑکی سے شادی چاہتے ہو تو وہ بھی حاضر ہے مگر ہمارے معبودوں کی توہین نہ کیا کرو۔ منجملہ ایسی تدابیر کے ایک تدبیر یا تجویز یہ بھی تھی کہ کافروں نے آپ سے کہا کہ ایک سال ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معبود کی عبادت کیا کریں گے بشرطیکہ اگلے سال تم ہمارے معبودوں کی عبادت کرو۔ کفار کی یہ تدبیر کسی روا داری کی بنا پر نہیں تھی بلکہ ایک انتہائی خطرناک چال تھی۔ جس سے وہ دھوکا دے کر پیغمبر اسلام کو ان کے قدموں سے اکھیڑنا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ تو اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی معبود برحق بلکہ سب سے بڑا معبود تسلیم کرتے تھے۔ ان کا جرم تو صرف یہ تھا کہ وہ اللہ کے ساتھ دوسرے معبودوں کی بھی عبادت کیا کرتے تھے۔ اس لیے اس شرط سے نہ ان کے عقیدہ میں کچھ فرق آتا تھا اور نہ ہی طرز زندگی میں، جبکہ اللہ کے رسول کو وہ شرک کی نجاست میں مبتلا کرنا چاہتے تھے جسے مٹانے کے لیے ہی آپ کو مبعوث فرمایا گیا تھا۔ اس میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ باطل کبھی اکیلا چل نہیں سکتا۔ جب تک اس میں کچھ نہ کچھ حق کی آمیزش نہ کی جائے۔ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے۔ وہ اکیلا چل نہیں سکتا جب تک اس میں سچ کی آمیزش نہ ہو اور یہی ان کافروں کا مذہب تھا۔ جبکہ حق باطل کی ادنیٰ سی آمیزش بھی گوارا نہیں کرتا۔ اس لیے کہ حق میں باطل کی ادنیٰ سی آمیزش سے حق باطل بن جاتا ہے۔ جیسے ایک من دودھ میں اگر ایک پاؤ بھر پیشاب ملا دیا جائے تو سارے کا سارا نجس، پلید اور ناقابل استعمال ہوجاتا ہے۔ اسی مضمون کو کسی شاعر نے ایک شعر میں یوں بیان کیا ہے۔ ؎ باطل دوئی پرست ہے، حق لاشریک ہے شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول کافروں کی اسی سمجھوتے کی تجویز کا جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔