إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ
یقیناً تیرا دشمن ہی لا وارث اور بے نام و نشان ہے (١)
[٣] کفار مکہ کے اخلاف :۔ شانئ۔ شَنأ۔ شناء سے مصدر شَنَاٰنُ اور اسم فاعل شانیئ ہے اور اس سے مراد ایسا دشمن ہے جو بدخواہ بھی ہو اور کینہ پرور بھی۔ یعنی عداوت بھی رکھتا ہو اور بغض بھی اور یہ دشمنی کا تیسرا اور انتہائی درجہ ہے قریش مکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایسے ہی دشمن تھے۔ بالخصوص ان کے سردار اور معتبر لوگ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دوسرا بیٹا (جسے طیب بھی کہتے ہیں اور طاہر بھی) بھی فوت ہوگیا تو یہ سب لوگ بہت خوش ہوئے اور تالیاں بجانے لگے اور ایک دوسرے کو مبارک کے طور پر کہنے لگے۔ بتر محمد اور بتر کا لفظ کسی جانور کے دم کاٹنے سے مخصوص ہے اور معنوی لحاظ سے مقطوع یا لاولد کو کہتے ہیں یا جس کا ذکر خیر کرنے والا کوئی باقی نہ رہے۔ ان کا مطلب یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی نرینہ اولاد تو رہی نہیں۔ اس کا معاملہ بس اس کی اپنی زندگی تک ہی محدود ہے۔ اس کے بعد اس کا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔ اسی کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اَبْتَرْ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہیں بلکہ آپ کے دشمن ہیں۔ ان دشمنوں میں سے اکثر تو جنگ بدر میں مارے گئے اور اگر ان کی نسل کہیں بچی بھی ہے تو ان کی اولاد میں کوئی بھی اپنے ایسے اسلاف کا نام لینا اور اپنے آپ کو ان کی طرف منسوب کرنا گوارا تک نہیں کرتا۔ ان کا ذکر خیر کرنا تو بڑی دور کی بات ہے۔ سب لوگ ان پر لعنت ہی بھیجتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو شان و عظمت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر خیر کو جو بقا بخشی ہے وہ لازوال ہے۔ دنیا کے اربوں مسلمان ہر روز کئی مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل پر درود بھیجتے ہیں۔ اذانوں اور نمازوں میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ تاقیامت بڑھتا ہی چلا جائے گا۔ پھر میدان محشر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو درجات عطا کیے جائیں گے اور مقام محمود عطا کیا جائے گا ان کے ذکر سے قرآن اور حدیث کی کتب بھری پڑی ہیں۔