إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ
بیشک (بالیقین) انسان سراسر نقصان میں ہے (١)
[٢] اس آیت کے مختلف مفہوم :۔ خُسْرٍ بمعنی راس المال میں کمی واقع ہونا۔ کسی سودے میں نفع کی بجائے الٹا نقصان ہوجانا، ٹوٹا، گھاٹا اور اس کی ضد رِبْحٌ ہے بمعنی کسی سودے میں نفع ہوجانا۔ اب اگر زمانہ سے مراد گزرا ہوا زمانہ لیا جائے تو اس آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ گزرے ہوئے زمانہ کی پوری تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسان انفرادی طور پر بھی اور بحیثیت مجموعی بھی ہمیشہ گھاٹے میں ہی رہا مگر اس گھاٹے سے صرف وہ لوگ بچ سکے ہیں جن میں وہ چار صفات پائی جائیں جو آگے مذکور ہیں اور اگر عصر سے مراد گزرنے والا زمانہ لیا جائے جو بڑی تیزی سے گزرتا جارہا ہے تو اس سے مراد ہر انسان کی مدت عمر ہوگی جو اسے اس دنیا میں بطور امتحان عمل کے لیے دی گئی ہے اور بڑی تیزی سے گزر رہی ہے۔ یہ مدت بھی اس بات پر شاہد ہے کہ جو شخص اس مدت سے صحیح فائدہ نہیں اٹھا رہا' وہ اعمال سرانجام نہیں دے رہا جو آگے مذکور ہیں۔ وہ سراسر گھاٹے میں جارہا ہے اور اس کا سرمایہ حیات دم بہ دم لٹ رہا ہے۔ ایک بزرگ کہتے ہیں کہ میں نے اس سورۃ العصر کا مطلب ایک برف فروش سے سمجھا جو یہ صدا لگا رہا تھا۔ ’’اس شخص پر رحم کرو جس کا سرمایہ دم بدم پگھل کر ضائع ہوتا جارہا ہے‘‘ اور امام شافعی کہتے ہیں کہ یہ سورت اپنے مضامین کے لحاظ سے اتنی جامع ہے کہ انسانی ہدایت کے لیے صرف یہی ایک سورت بھی کافی تھی اور طبرانی کی ایک روایت کے مطابق جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ایک دوسرے سے جدا ہونے لگتے تو یہ سورت ایک دوسرے کو پڑھ کر سناتے پھر سلام کہہ کر ایک دوسرے سے جدا ہوتے تھے۔ واضح رہے کہ اس آیت میں خسارہ سے مراد اخروی نقصان ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ان چار صفات کے حامل انسان دنیا میں خسارہ میں ہی رہتے ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ دنیا میں بھی ایسے لوگ خسارہ کے بجائے فائدہ میں رہ سکتے ہیں لیکن یہ بات یقینی نہیں۔ ممکن ہے انہیں دنیا میں خسارہ ہی رہے تاہم یہ بات یقینی ہے کہ آخرت میں بہرحال یہی لوگ خسارہ سے محفوظ رہیں گے اور اخروی نجات ان کے لیے یقینی ہوگی۔