سورة العاديات - آیت 5

فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

پھر اسی کے ساتھ فوجوں کے درمیان گھس جاتے ہیں۔ (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥] اس بات میں اختلاف ہے کہ اس میں جَمْعًا سے مراد کون سی جمعیت یا لشکر ہے؟ بعض علماء کا خیال ہے کہ یہاں جَمْعًا سے مراد وہ قبیلہ ہے جس پر انتقام یا لوٹ مار کی غرض سے حملہ کیا جاتا ہے۔ اور گھوڑوں سے مراد وہی گھوڑے ہیں جو عرب قبائل ایسے موقعوں پر استعمال کیا کرتے تھے۔ اپنے اس موقف کے حق میں ان کی دلیل یہ ہے کہ آگے چل کر اللہ تعالیٰ نے جواب قسم کے دوران فرمایا کہ :’’انسان مال کی محبت میں بری طرح مبتلا ہے‘‘ اور چونکہ عرب قبائل مال کی محبت کی وجہ سے ہی ایسے حملے کرتے تھے لہٰذا یہاں جن گھوڑوں کی قسم کھائی گئی ہے وہ وہی لوٹ مار کرنے والے گھوڑے ہیں اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے گھوڑوں کی نہیں بلکہ گھوڑوں کے رسالہ اور ان پر سوار مجاہدین کی قسم کھائی ہے جو کافروں کے لشکر پر جا پڑتے ہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی منزل پر پہنچ جاتے تو صبح کا انتظار کرتے رہتے۔ اگر بستی سے اذان کی آواز آجاتی تو پھر حملہ نہیں کرتے تھے اور اگر نہ آتی تو حملہ کردیتے۔ (مسلم، کتاب الصلوۃ۔ باب الامساک عن الاغارۃ علٰی قوم فی دارالکفر اذا سمع فیھم الاذان) اور درج ذیل حدیث اگرچہ اس بات کی صراحت نہیں کرتی کہ اللہ تعالیٰ نے عام گھوڑوں کی قسم کھائی ہے یا مجاہدین اور ان کے گھوڑوں کی۔ تاہم اس میں جہاد کے لیے تیار کیے ہوئے گھوڑوں کی بہت فضیلت بیان ہوتی ہے۔ جہاد کے لیے گھوڑا رکھنے کی فضیلت :۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’گھوڑوں کا حال تین طرح پر ہے۔ کسی کے لیے تو وہ باعث ثواب ہیں، کسی کے لیے معاف اور کسی کے لیے عذاب۔ ثواب تو اس کے لیے جو انہیں جہاد کی نیت سے باندھے اور چراگاہ یا باغ میں ان کی رسی کھلی چھوڑ دے وہ جہاں سے اور جہاں تک چریں گے اس کے لیے نیکیاں ہوں گی اور اگر انہوں نے رسی تڑا لی اور قدم دو قدم آگے چلے گئے تو ان کے پاؤں کے نشانات اور ان کی لید سب کچھ اس کے لیے نیکیاں ہوں گی اور اگر وہ کسی نہر پر جاکر پانی پی لیں۔ خواہ مالک کا انہیں پانی پلانے کا ارادہ نہ ہو تو بھی مالک کو نیکیاں ملیں گی۔ ایسے گھوڑے تو مالک کے لیے باعث ثواب ہیں۔ اور جس نے اپنی ضرورت پوری کرنے اور دوسرے سے سوال کرنے سے بچنے کے لیے گھوڑا رکھا اور اللہ کا جو حق گھوڑے کی گردن اور پشت پر ہے اور اسے نہ بھولا۔ تو ایسے شخص کے لیے گھوڑا رکھنا معاف ہے۔ اور جس نے گھوڑا فخر، ریا اور مسلمانوں کو ستانے کے لیے رکھا تو وہ اس کے لیے عذاب ہے‘‘ پھر کسی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گدھوں کے متعلق پوچھا : ’’کہ کیا ان کا بھی یہی حکم ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کوئی خاص حکم نازل نہیں کیا مگر یہ اکیلی جامع آیت (جو گدھوں کو بھی شامل ہے) ﴿ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَہٗ وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ﴾‘‘(بخاری۔ کتاب التفسیر) ان علماء کے خیال کے مطابق اللہ کے ہاں مجاہدین اور ان کے گھوڑے ہی ایسی قدر و منزلت رکھتے ہیں کہ ان کی قسم کھائی جائے۔ عام گھوڑے یہ اہمیت نہیں رکھتے۔