بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
شروع کرتا ہوں میں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے (سورۃ العلق۔ سورۃ نمبر ٩٦۔ تعداد آیات ١٩)
[١] اس سورت کی ابتدائی ٥ آیات غار حرا میں نازل ہوئیں اور انہی آیات سے آپ کی نبوت کا اور وحی کا آغاز ہوا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت یوں شروع ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خواب سچے ہونے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ خواب میں دیکھتے وہ صبح کی روشنی کی طرح سامنے آجاتا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تنہائی بھلی لگنے لگی۔ آپ غار حرا میں جاکر عبادت کیا کرتے اور کئی کئی راتیں وہاں رہتے، گھر نہ آتے اور توشہ ساتھ لے جاتے پھر اپنے گھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے اور اتنا ہی توشہ اور لے جاتے۔ یہاں تک کہ غارحرا میں آپ پر وحی نازل ہوئی۔ وحی کا آغاز کیسے ہوا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس فرشتہ (جبریل علیہ السلام) آیا اور کہنے لگا : ''پڑھیے'' تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں ان پڑھ ہوں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کہتے تھے کہ پھر فرشتہ نے مجھے بڑے زور سے بھینچا۔ پھر چھوڑا اور کہا : ''پڑھیے'' میں نے کہا : میں ان پڑھ ہوں۔ پھر دوبارہ اس نے مجھے زور سے بھینچا۔ چھوڑا اور کہا ''پڑھیے'' میں نے کہا :’’میں پڑھا لکھا نہیں‘‘ فرشتہ نے پھر تیسری بار زور سے بھینچا۔ پھر چھوڑا اور کہا : (اقرأ باسم۔۔۔ لویعلم) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر کو لوٹے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کندھے اور گردن کا گوشت (ڈر کے مارے) پھڑک رہا تھا۔ آکر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : ’’مجھے کپڑا اوڑھا دو، کپڑا اوڑھادو۔‘‘ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ڈر جاتارہا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہا سے کہا : ’’خدیجہ! پتا نہیں مجھے کیا ہوا۔ مجھے تو اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سارا واقعہ سنایا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کہنے لگیں۔ ’’ہرگز ایسا نہ ہوگا۔ بلکہ آپ خوش ہوجائیے۔ اللہ کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کبھی ضائع نہ کرے گا۔‘‘ نبوت سے پہلے آپ کا کردار :۔ کیونکہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرابتداروں سے اچھا سلوک کرتے ہیں۔ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ ناتوانوں کے بوجھ اٹھاتے ہیں۔ محروم لوگوں کو (ضرورت کی) اشیاء مہیا کرتے ہیں۔ مہمان کی ضیافت کرتے ہیں اور مصائب میں حق کی پاسداری کرتے ہیں‘‘ پھر سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاکے چچا زادہ بھائی تھے۔ یعنی ان کا باپ اور ورقہ کا باپ بھائی بھائی تھے۔ دور جاہلیت میں وہ عیسائی ہوگئے تھے (کیونکہ اس وقت یہی دین حق تھا) وہ عربی لکھنا خوب جانتے تھے اور انجیل کا عربی زبان میں ترجمہ لکھا کرتے تھے جتنی کہ اللہ کو منظور ہوتا۔ وہ بہت بوڑھے تھے اور اندھے ہوگئے تھے۔ ورقہ بن نوفل کا آپ کو تسلی دینا :۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا :’’ بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی بات تو سنو‘‘ چنانچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا بیان کردیا۔ وہ کہنے لگے :’’یہ تو وہی ناموس (فرشتہ) ہے جو موسیٰ (علیہ السلام) پر اترتا تھا۔ کاش میں اس وقت جوان ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب تمہاری قوم تمہیں (مکہ سے) نکال دے گی۔‘‘ ہجرت کی بات پر آپ کا تعجب؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا :’’کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘‘ ورقہ کہنے لگے ’’ہاں! کیونکہ جو چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لائے ہیں وہ جو بھی لایا اسے تکلیف ہی دی گئی اور اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو تمہاری بھر پور مدد کروں گا‘‘ پھر اس واقعہ سے تھوڑی ہی مدت بعد ورقہ فوت ہوگئے۔ اور وحی کا آنا بھی موقوف رہا جس کی وجہ سے آپ غمگین رہا کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) آیت نمبر ٦ سے آخر تک کی چودہ آیات اس وقت نازل ہوئیں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دار ارقم سے نکل کر بیت اللہ شریف میں نماز ادا کرنا شروع کی تھی۔ ان آیات میں بھی مخاطب کا نام نہیں لیا گیا مگر جو صفات بیان کی گئیں ان سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان آیات کا روئے سخن ابو جہل کی طرف ہے جو آپ کو خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے سے روکا کرتا تھا۔ اور ایسا واقعہ کوئی ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ پیش آیا تھا۔