الَّذِي أَنقَضَ ظَهْرَكَ
جس نے تیری پیٹھ توڑ دی تھی۔
[٢] وزر کے دو مفہوم :۔ وِزْرَ کا لفظ بھاری بوجھ کے لیے آتا ہے اور اس کی جمع اوزار ہے لیکن اس کا اکثر استعمال معنوی بوجھ کے لیے ہوتا ہے بالخصوص بار گناہ اور کسی طرح کے بھی ذہنی بوجھ کے لیے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔ یہاں وزر سے مراد وہ ذہنی بوجھ ہے جو نبوت سے پہلے ہی آپ کو لاحق تھا۔ جب آپ اپنی قوم کو کفر و شرک کی گمراہیوں اور طرح طرح کی معاشرتی برائیوں میں مبتلا دیکھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پورے معاشرے کی اس حالت پر سخت دل گرفتہ رہتے تھے کہ کس طرح اس بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح ممکن ہے۔ مگر اس کی کوئی صورت، کوئی طریقہ اور کوئی راہ نظر نہیں آتی تھی۔ بالآخر آپ پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹھیک طرح سے معلوم ہوگیا کہ اس سارے بگاڑ کا علاج توحید، عقیدہ آخرت اور رسالت پر ایمان میں مضمر ہے۔ چنانچہ آپ کا سارا ذہنی بار ہلکا ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یقین حاصل ہوگیا کہ اس طرح نہ صرف اپنی قوم بلکہ ساری دنیا کو ان خرابیوں اور برائیوں سے نکالا جاسکتا ہے جن میں اس وقت عرب کے علاوہ باقی ساری دنیا بھی مبتلا تھی۔ علاوہ ازیں وزر کا دوسرا مفہوم رسالت کی ذمہ داریاں بھی ہوسکتا ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا﴿ اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْکَ قَوْلًا ثَـقِیْلًا﴾(۷۳:۵) یہ بوجھ بھی ابتداء نہایت گرانبار تھا جبکہ آغاز دعوت پر مخالفتوں کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہاڑ جیسا حوصلہ عطا کرکے اس کمر توڑ بوجھ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذہن سے اتار دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذمہ داریاں نباہنے کے لیے دل و جان سے مستعد ہوگئے۔