سورة الفجر - آیت 3

وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جفت اور طاق کی !۔ (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣] شفع اور وتر کا لغوی مفہوم :۔ شَفْعَ: لفظ شَفْعِ کا اطلاق ان اشیاء پر ہوتا ہے جن میں نر و مادہ کی تمیز نہیں اور شفع کے معنی ایک چیز کو اسی جیسی دوسری چیز سے ملا دینا اور اس طرح کرکے دو دو ملی ہوئی چیزوں کو شفع کہتے ہیں۔ اور جس کے ساتھ اس جیسی چیز نہ ہو اسے وتر کہتے ہیں۔ وتر کی بہترین مثال خود اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اور نمازوں میں اس کی مثال نماز مغرب کے فرض ہیں اور عشاء کے آخر میں وتر کی نماز اور وتر کی نماز کو وتر اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ جتنے بھی پڑھے جائیں۔ مثلاً ایک، تین، پانچ، سات، نو، گیارہ وہ وتر ہی رہیں گے۔ اور وتر حقیقتاً ایک ہی رکعت ہے اب اس کے ساتھ جتنے بھی جفت نفل پڑھے جائیں۔ ایک وتر سب کو وتر بنا دے گا۔ اور اعداد میں ہر وہ ہندسہ جو دو پر تقسیم ہوجائے وہ شفع یا جفت ہے۔ جیسے دو، چار، چھ، آٹھ وغیرہ اور جو دو پر پورا تقسیم نہ ہو وہ وتر یا طاق ہے۔ جیسے ایک، تین، پانچ، سات وغیرہ۔ مثلاً سات کے وتر ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ چھ کے تو تین جوڑے جوڑے بن گئے اور ساتویں وتر نے مل کر سب کو وتر بنا دیا۔ کائنات میں اکثر اشیاء میں تو نر و مادہ کی تقسیم پائی جاتی ہے اور جن میں نہیں پائی جاتی ان میں بھی زوج ہوتا ہے۔ جیسے جوتی کا ایک پاؤں دوسرے پاؤں کا زوج ہے اور جب یہ دونوں اکٹھے ہوگئے تو یہ شفع یا جفت ہوگیا۔ اور بعض ایسی چیزیں ہیں جن کی مثل کوئی اور چیز نہیں ہوتی۔ یہی اشیاء وتر ہیں اور ایسی اشیاء کی موجودگی اور استقلال اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔