هَا أَنتُمْ هَٰؤُلَاءِ جَادَلْتُمْ عَنْهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَمَن يُجَادِلُ اللَّهَ عَنْهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَم مَّن يَكُونُ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا
ہاں تو یہ تم لوگ کہ دنیا میں تم نے ان کی حمایت کی لیکن اللہ تعالیٰ کے سامنے قیامت کے دن ان کی حمایت کون کرے گا ؟ اور وہ کون ہے جو ان کا وکیل بن کر کھڑا ہو سکے گا۔ (١)
[١٤٨] یہ خطاب اس منافق چور کے حمایتیوں سے ہے کہ اگر آج تم چور کے حمایتی بن بھی گئے تو کل قیامت کے دن اللہ کے روبرو تم میں سے کون اس کی وکالت کرے گا جبکہ تمہارے لیے تمہارا اپنا ہی یہ گناہ کافی ہوگا۔ ضمناً اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ کسی شخص کے پاس سے چوری کا مال برآمد ہوجانا اس بات کا یقینی ثبوت نہیں ہوتا کہ وہ فی الواقع چور ہے لہٰذا ایسے معاملات میں انتہائی تحقیق اور احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لیے آپ نے حدود قائم کرنے کے سلسلہ میں بہت سی ہدایات فرمائی ہیں جن کا ذکر کسی دوسرے مناسب مقام پر کردیا گیا ہے۔