سورة البروج - آیت 7

وَهُمْ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤] اصحاب الاخدود کا قصہ اور ذونواس یہودی بادشاہ :۔ اس ضمن میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے :۔ صہیب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ : ایک بادشاہ کا ایک کاہن تھا جو اسے غیب کی خبریں دیا کرتا تھا۔ کاہن نے بادشاہ سے کہا کہ ایک ذہین و فطین لڑکا تجویز کرو جسے میں یہ علم سکھا دوں، مجھے خطرہ ہے کہ مرجاؤں تو یہ علم ہی نہ اٹھ جائے اور تم میں اس کا کوئی استاد نہ رہے۔ چنانچہ لوگوں نے ایسا لڑکا تجویز کیا اور اسے حکم دیا کہ وہ ہر روز اس کے پاس حاضر ہوا کرے۔ چنانچہ وہ لڑکا اس کاہن کے ہاں آنے جانے لگا۔ اس لڑکے کے راستہ میں ایک گرجا میں ایک راہب رہتا تھا۔ معمر راوی کہتا ہے کہ میرے خیال میں ان دنوں ایسے عبادت خانوں کے لوگ ہی مسلمان تھے۔ وہ لڑکا جب اس راہب کے پاس سے گزرتا تو اس سے دین کی باتیں پوچھتا تاآنکہ راہب نے اسے بتایا۔ میں تو صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔ اب لڑکا راہب کے پاس زیادہ دیر رہنے لگا اور کاہن کے ہاں دیر سے پہنچتا۔ کاہن نے اس کے گھر والوں کو کہلا بھیجاکہ لڑکا میرے پاس کم ہی آتا ہے۔ لڑکے نے راہب کو یہ بات بتائی تو راہب نے اسے کہا۔ جب کاہن تم سے پوچھے کہ کہاں رہے تو کہہ دینا کہ میں اپنے گھر والوں کے پاس تھا اور اگر گھر والے پوچھیں تو کہہ دینا کہ میں کاہن کے پاس تھا۔ کچھ وقت اسی طرح گزرا۔ پھر ایک دفعہ یوں ہوا کہ کسی جانور نے بہت سے لوگوں کی راہ روک دی۔ بعض کہتے ہیں کہ وہ جانور شیر تھا۔ لڑکے نے ایک پتھر اٹھایا اور کہنے لگا۔ یا اللہ! جو کچھ یہ راہب کہتا ہے اگر یہ سچ ہے تو میں تجھ سے سوال کرتاہوں کہ تو (اس پتھر سے) اس (جانور) کو ہلاک کردے۔ پھر اس نے پتھر جو پھینکا تو جانور مر گیا۔ لوگ پوچھنے لگے۔ ’’اس جانور کو کس نے مارا ہے؟‘‘ کسی نے کہا، ’’ اس لڑکے نے‘‘ اب لوگ گھبرائے اور کہنے لگے کہ اس لڑکے نے تو ایسا علم سیکھا ہے جو کوئی بھی نہیں جانتا۔ یہ بات ایک اندھے نے سنی تو لڑکے سے کہا : ’’اگر تو میری آنکھیں لوٹادے تو میں تمہیں بہت مال و دولت دوں گا‘‘ لڑکے نے کہا :’’مجھے مال و دولت کی ضرورت نہیں البتہ اگر تیری بینائی لوٹ آئے تو کیا تو اس ذات پر ایمان لائے گا جس نے بینائی کو لوٹایا ؟‘‘ اندھا کہنے لگا ''ہاں'' چنانچہ لڑکے نے اللہ سے دعا کی تو اس کی بینائی لوٹ آئی۔ پھر اندھا بھی ایمان لے آیا۔ جب بادشاہ کو یہ خبر پہنچی تو اس نے سب کو بلایا اور کہا کہ میں تم کو الگ الگ طریقے سے مار ڈالوں گا چنانچہ راہب کو تو آرے سے چروا ڈالا اور اندھے کو کسی اور طرح سے مروا ڈالا۔ پھر اس لڑکے کے لیے حکم دیا کہ اسے فلاں پہاڑ پر لے جاؤ اور چوٹی پر جاکر اسے نیچے گرا دو۔ چنانچہ جب وہ اس چوٹی پر پہنچے جہاں سے لڑکے کو گرانا چاہتے تھے تو وہ خود گرنے لگے اور لڑکے کے سوا چوٹی پر کوئی نہ رہا۔ وہ لڑکا بادشاہ کے پاس آگیا تو اب اس نے حکم دیا کہ اب اسے دریا میں لے جاکر (کشتی سے گرا کر) ڈبو دو۔ اب بھی اللہ نے ان لوگوں کو غرق کردیا اور لڑکے کو بچا لیا۔ اب لڑکا بادشاہ کے پاس آکر کہنے لگا کہ : اگر تم مجھے مارنا ہی چاہتے ہو تو اس کی صرف یہی صورت ہے کہ مجھے سولی پر لٹکا کر تیر مارو اور تیر مارتے وقت یوں کہو۔ ’’اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا پروردگار ہے‘‘ چنانچہ اس نے ایسا ہی حکم دیا۔ پھر لڑکا سولی چڑھایا گیا پھر اس نے یہ کہہ کر تیر مارا۔ ’’اللہ کے نام سے جو اس لڑکے کا پروردگار ہے‘‘ چنانچہ جب لڑکے کو تیر لگا تو اس نے اپنا ہاتھ اپنی کنپٹی پر رکھا اور مرگیا۔ اب لوگ کہنے لگے۔’’یہ لڑکا تو وہ علم جانتا تھا جو کسی کو بھی معلوم نہیں۔ ہم اس لڑکے کے پروردگار پر ایمان لاتے ہیں‘‘ لوگوں نے بادشاہ سے کہا: ’’تم تو تین آدمیوں کی مخالفت سے گھبرا گئے تھے۔ اب یہ سارے لوگ تمہارے مخالف ہوگئے ہیں‘‘ پھر بادشاہ نے بڑی بڑی خندقیں کھدوائیں اور اس میں لکڑیاں ڈال کر آگ لگا دی۔ پھر لوگوں کو اکٹھا کرکے کہنے لگا : ’’ جو شخص اپنے (نئے) دین سے باز آتا ہے اسے تو ہم چھوڑ دیں گے اور جو نہ پھرے اسے ہم آگ میں ڈال دیں گے‘‘ پھر وہ مومنوں کو ان خندقوں میں ڈالنے لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسی بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ہلاک ہوئے خندقوں والے۔ وہ آگ تھی بہت ایندھن والی تاآنکہ آپ نے عزیز الحمید تک پڑھا۔ پھر فرمایا ’’اور وہ لڑکا جو تھا وہ دفن کیا گیا‘‘ راوی کہتا ہے کہ اس لڑکے کی نعش سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نکالی گئی اور وہ انگلی اپنی کنپٹی پر رکھے ہوئے تھا جیسے اس نے قتل کے وقت رکھی تھی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر)