سورة النسآء - آیت 93

وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جو کوئی کسی مومن کو قصداً قتل کر ڈالے، اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے (١) اسے اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٨] قتل خطا کے کفارے کی مختلف صورتیں اور توبہ کا طریقہ تو بیان کردیا گیا مگر کسی مومن کا قتل عمدً انتہائی شدید جرم ہے جس کا اس دنیا میں کفارہ ممکن ہی نہیں۔ قتل ناحق کسی غیر مسلم کا ہو تو وہ بھی شدید جرم ہے پھر اگر مومن کا ہو تو مزید شدید جرم بن جاتا ہے۔ نیز جرم بیان کرنے کے بعد اللہ کا غضب اور اس کی لعنت کے الفاظ سے اس جرم کی شدت واضح ہوجاتی ہے۔ رہا یہ سوال کہ ایسے مجرم کی توبہ بھی قبول ہے یا نہیں؟ تو اگرچہ اس میں علماء کا اختلاف موجود ہے تاہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسی بات کے قائل ہیں کہ ایسے مجرم کی توبہ قبول نہیں ہوتی۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے جہاں یہ بات واضح ہوتی ہے وہاں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتنا بڑا جرم ہے۔ ١۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے خطبہ حجۃ الوداع) میں فرمایا ’’اللہ نے تم پر ایک دوسرے کے خون، مال اور آبرو اسی طرح حرام کردی ہیں جس طرح تمہارے اس دن (یوم النحر) کی تمہارے اس شہر (مکہ) کی اور تمہارے اس مہینہ (ذوالحجہ) کی حرمت ہے۔‘‘ نیز فرمایا کہ ’’میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مار کر کافر نہ بن جانا۔‘‘ (بخاری، کتاب الحدود۔ باب ظہر المومن حمی الافی حد او فی حق) ٢۔ قتل ناحق اور قتل عمد :۔ سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’جب دو مسلمان تلوار لے کر باہم لڑیں تو قاتل و مقتول دونوں جہنمی ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’اے اللہ کے رسول ! یہ تو قاتل تھا، مقتول کا کیا قصور‘‘فرمایا ’’اس لیے کہ وہ بھی اپنے ساتھی کے قتل کے درپے تھا۔‘‘ (بخاری، کتاب الدیات۔ باب قول اللہ و من احیاھا ) ٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تین آدمیوں پر اللہ (قیامت کے دن) سب سے زیادہ غضب ناک ہوگا۔ (١) حرم میں الحاد کرنے والا، (٢) اسلام میں طریقہ جاہلیت کا متلاشی اور (٣) ناحق کسی کا خون بہانے کا طالب۔‘‘ (بخاری، کتاب الدیات۔ باب من طلب دم امری بغیر حق) ٤۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’قیامت کے دن قاتل کی پیشانی کے بال اور سر مقتول کے ہاتھ میں ہوگا اور اس کے گلے کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا اور اللہ سے فریاد کرے گا کہ اے میرے رب! اس نے مجھے قتل کیا تھا یہاں تک کہ عرش کے قریب لے جائے گا۔ راوی کہتا ہے کہ لوگوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے توبہ کا ذکر کیا تو انہوں نے یہی آیت پڑھی اور کہا کہ یہ آیت نہ منسوخ ہے اور نہ بدلی گئی۔ پھر اس کی توبہ کیسے قبول ہو سکتی ہے؟‘‘ (ترمذی، ابو اب التفسیر) ٥۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ یہ آیت اخیر زمانہ میں نازل ہوئی (لہٰذا محکم ہے) اسے کسی چیز نے منسوخ نہیں کیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر)