وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن يَقْتُلَ مُؤْمِنًا إِلَّا خَطَأً ۚ وَمَن قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَأً فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ إِلَّا أَن يَصَّدَّقُوا ۚ فَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّكُمْ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ وَإِن كَانَ مِن قَوْمٍ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُم مِّيثَاقٌ فَدِيَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَىٰ أَهْلِهِ وَتَحْرِيرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ۖ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
کسی مومن کو دوسرے مومن کا قتل کردینا زیبا نہیں (١) مگر غلطی سے ہوجائے (٢) (تو اور بات ہے) جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے، اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرانا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے (٣) ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ لوگ بطور صدقہ معاف کردیں (٤) اور اگر مقتول تمہاری دشمن قوم کا ہو اور ہو وہ مسلمان، تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرانی لازمی ہے (٥) اور اگر مقتول اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہد و پیمان ہے تو خون بہا لازم ہے، جو اس کے کنبے والوں کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا بھی ضروری ہے (٦) پس جو نہ پائے اس کے ذمے لگاتار دو مہینے کے روزے ہیں (٧) اللہ تعالیٰ سے بخشوانے کے لئے اور اللہ تعالیٰ بخوبی جاننے والا اور حکمت والا ہے۔
[١٢٧] قتل خطا کی صورتیں اور کفارہ :۔ اس آیت میں قتل خطا کے احکام بیان ہوئے ہیں۔ قتل خطا کی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں مثلاً تیر یا پتھر مارا تو شکار کو تھا لیکن وہ کسی مسلمان کو لگ گیا اور وہ مر گیا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ماری تو کوئی چیز عمداً ہی تھی مگر مارنے والے کو ہرگز یہ گمان نہ تھا کہ وہ اس ہلکی سی ضرب سے مر ہی جائے گا۔ تیسری یہ کہ لڑائی وغیرہ کسی ہنگامے میں کسی مسلمان کو کافر سمجھ کر مار ڈالے۔ جیسا کہ جنگ احد میں شکست کے بعد مسلمانوں نے بدحواسی کے عالم میں سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے والد سیدنا یمان رضی اللہ عنہ کو کافر سمجھ کر مار ڈالا تھا۔ حالانکہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ یہ کہتے ہی رہے کہ یہ تو میرے والد ہیں مگر اس افراتفری کے عالم میں کسی نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کی آواز کو سنا ہی نہ تھا۔ اور چوتھی صورت جو آج کل بہت عام ہے، یہ کہ ٹریفک کے حادثہ میں کسی گاڑی کے نیچے آ کر، یا اس کی ضرب سے مارا جائے۔۔ قتل خطا کے احکام یا اس کے کفارہ کی صورتیں یہ ہیں : ١۔ اگر مقتول کے وارث مسلمان ہیں تو ایک غلام مومن (خواہ مرد ہو یا عورت) آزاد کرنا ہوگا اور مقتول کے وارثوں کو خون بہا بھی ادا کرنا ہوگا۔ خون بہا یا دیت سو اونٹ یا ان کی قیمت کے برابر رقم ہے۔ جو قاتل کے وارث مقتول کے وارثوں کو ادا کریں گے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک ادائیگی دیت کی زیادہ سے زیادہ مدت تین سال تک ہے اور یہ دیت مقتول کے وارث چاہیں تو معاف بھی کرسکتے ہیں۔ اور اگر قاتل کو (آزاد کرنے کے لیے) غلام میسر نہ آئے تو وہ متواتر دو ماہ روزے بھی رکھے گا۔ واضح رہے کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے والد جنگ احد میں اجتماعی صورت میں کئی مسلمانوں کے ہاتھوں شہید ہوئے جنہیں سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے علی الاعلان معاف کردیا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے اہل احد کی خطائیں معاف کردی تھیں لہٰذا وہاں کفارے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوتا تھا۔ ٢۔ اگر مقتول تو مومن ہو مگر دشمن قوم سے تعلق رکھتا ہو تو اس کا کفارہ صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا ہے۔ اور اگر میسر نہ آئے تو دو ماہ کے متواتر روزے ہیں اور اس کی دیت نہ ہوگی۔ ٣۔ اور اگر مومن مقتول کا تعلق کسی معاہد قوم سے ہو تو اس کے وہی احکام ہیں جو پہلی صورت کے ہیں۔