أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ ۚ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا
کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بھی کچھ اختلاف پاتے (١)۔
[١١٤] قرآن میں اختلاف نہ ہونا ہی منزل من اللہ ہونے کی دلیل ہے :۔ منافقوں کی جن باتوں پر انہیں تنبیہ کی گئی ہے ان کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں قرآن کے منزل من اللہ ہونے میں بھی شک تھا۔ اس آیت میں اس شک کو دور کرنے کی عقلی دلیل پیش کی گئی ہے جو یہ ہے، کہ انسان کی حالت یہ ہے کہ بچپن میں اس کی عقل ناپختہ ہوتی ہے۔ جوانی میں قدرے ترقی کر جاتی ہے اور پختہ عمر میں عقل بھی پختہ ہوجاتی ہے اور اس کے ان تینوں ادوار کے کلام میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ پھر زندگی بھر اس کے نظریات بدلتے رہتے ہیں۔ بچپن میں خیالات و نظریات اور طرح کے ہوتے ہیں، جوانی میں اور طرح کے اور بڑھاپے میں اور طرح کے۔ پھر انسان جس شہر یا ملک میں جاتا ہے تو وہاں کے معاشرتی ماحول کا اثر قبول کرلیتا ہے۔ پھر کبھی انسان غصہ کی حالت میں ہوتا ہے تو سب مخاطبوں کو دہشت زدہ بنا دیتا ہے۔ یہی افراط و تفریط کی کیفیت اس کے ہر قسم کے جذبات میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے۔ گویا اگر کسی بھی ایک انسان کے زندگی بھر کے کلام کا مجموعہ تیار کیا جائے تو اس میں سینکڑوں اختلافات اور تضادات آپ کو مل جائیں گے اس کے برعکس اب اللہ کے کلام پر نظر ڈالیے جو ٢٣ سال تک مختلف اوقات اور مختلف پس مناظر اور مختلف مواقع پر نازل ہوتا رہا۔ جو آخر میں ترتیب پا کر ایک مجموعہ بن گیا۔ اب دیکھیے ادبی لحاظ سے اس کی فصاحت و بلاغت میں کہیں کوئی فرق ہے؟ یا اس کے نظریات میں، اس کی اخلاقی اقدار کی تعیین میں کوئی اختلاف آپ دیکھتے ہیں؟ یا ایسی صورت ہے کہ مثلاً اگر یہود پر عتاب نازل ہوا ہو تو سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا گیا ہو۔ اور اس میں سے ان کے اچھے لوگوں کو مستثنیٰ نہ کیا گیا ہو۔ اور ان کی خوبیاں الگ بیان نہ کردی گئی ہوں؟ غرض جتنے بھی پہلو آپ سامنے لائیں گے آپ اسی نتیجہ پر پہنچیں گے کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا اور اس کو نازل کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہی ہوسکتا ہے۔ سرسری نظر دیکھنے سے اگرچہ قرآن میں کچھ اختلافات نظر آتے ہیں لیکن اس کی وجہ عدم رسوخ یا قرآن کے جملہ مضامین پر پوری طرح مطلع نہ ہونا ہوتا ہے اور اس قسم کے اختلافات کا جواب بھی قرآن ہی سے مل جاتا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے ظاہر ہے : قرآن میں اختلاف معلوم ہو تو اس کی وجہ نافہمی ہے۔ سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں تو قرآن میں کئی اختلافات کی باتیں پاتا ہوں۔ مثلاً ١۔ ایک آیت میں ہے ﴿فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ یَوْمَیِٕذٍ وَّلَا یَتَسَاۗءَلُوْنَ﴾ (قیامت کے دن ان میں کوئی رشتہ حائل نہ رہے گا اور نہ وہ ایک دوسرے کو پوچھیں گے) اور دوسرے مقام پر ہے ﴿ وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَّتَسَاۗءَلُوْنَ﴾ )ان میں سے کچھ ان کے سامنے آ کر ایک دوسرے سے سوال کریں گے) ٢۔ ایک آیت میں ہے ﴿وَلَا یَکْتُمُوْنَ اللّٰہَ حَدِیْثًا ﴾ (وہ اللہ سے کوئی بات چھپا نہ سکیں گے) اور دوسری آیت میں ہے کہ قیامت کے دن مشرکین کہیں گے ﴿وَاللّٰہِ رَبِّنَا مَا کُنَّا مُشْرِکِیْنَ ﴾(اللہ کی قسم! ہم شرک نہیں کیا کرتے تھے) گویا وہ اصل بات چھپائیں گے۔ ٣۔ اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ فرمایا ﴿ ءَاَنْتُمْ اَشَدُّ خَلْقًا اَمِ السَّمَاۗءُ ۭ بَنٰیہَا .... دحٰها﴾ تک۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آسمان کی پیدائش زمین سے پہلے ہوئی اور سورۃ حٰم السجدہ میں فرمایا ﴿ قُلْ اَیِٕنَّکُمْ لَتَکْفُرُوْنَ بالَّذِیْ خَلَقَ الْاَرْضَ فِیْ یَوْمَیْنِ وَتَجْعَلُوْنَ لَہٗٓ اَنْدَادًا ۭذٰلِکَ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ﴾ اس سے یہ معلوم ہوا کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا ہوئی۔ ٤۔ نیز فرمایا ﴿وَکَان اللّٰہُ غَفُوْراً رَّحِیْماً۔۔ عَزِیْزاً حَکِیْماً۔۔ سَمِیْعاً بَصِیْراً﴾ ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان صفات سے زمانہ ماضی میں موصوف تھا مگر اب نہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ان سوالوں کے جواب میں فرمایا : ١۔ ﴿فَلَآ اَنْسَابَ بَیْنَہُمْ﴾ میں اس وقت کا ذکر ہے جب پہلی دفعہ صور پھونکا جائے گا اور آسمان و زمین والے سب بے ہوش ہوجائیں گے اس وقت نہ کوئی رشتہ ناطہ رہے گا اور نہ ایک دوسرے سے کچھ بھی پوچھنے کا ہوش ہوگا۔ اور دوسری آیت میں جو ایک دوسرے سے سوال کرنے کا ذکر ہے یہ دوسرے نفخۂ صور کے بعد ہوگا۔ ٢۔ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ اخلاص والوں (موحدین) کے گناہ بخش دے گا تو مشرک آپس میں صلاح کریں گے کہ چلو ہم بھی جا کر کہہ دیتے ہیں کہ ’’ہم مشرک نہیں تھے‘‘ تو اللہ تعالیٰ ان کے منہ پر مہر لگا دے گا اور ان کے ہاتھ اور پاؤں بولنا شروع کردیں گے اور انہیں معلوم ہوجائے گا کہ اللہ سے کوئی بات چھپائی نہیں جا سکتی۔ یہی وہ وقت ہوگا کہ جب کافر یہ آرزو کریں گے کہ کاش وہ (دنیا میں) مسلمان ہوتے۔ ٣ آسمان اور زمین کی تخلیق میں ترتیب :۔ اللہ تعالیٰ نے (پہلے) زمین کو دو دن میں پیدا کیا۔ پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا تو اگلے دو دنوں میں ان کو (سات آسمان) بنایا۔ اس کے بعد زمین کو پھیلایا اور زمین کا پھیلانا یہ ہے کہ اس سے پانی نکالا، گھاس، چارہ پیدا کیا۔ پہاڑ، جانور اور ٹیلے وغیرہ اگلے دو دنوں میں بنائے۔ اس طرح زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں میں مکمل ہوئی اور چار دن (دو ابتدائی، دو آخری) زمین کی پیدائش اور اسے سنوارنے میں لگے۔ ٤۔ 'کَانَ ' کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات ازلی ہیں اور یہ سب اس کے نام ہیں یعنی وہ ہمیشہ سے ان صفات کا ملک ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ جو چاہے وہ کرسکتا ہے۔۔ گویا اب کوئی اختلاف نہ رہا۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے جبکہ یہ سارا قرآن اسی کی طرف سے نازل ہوا ہے (بخاری، کتاب التفسیر سورۃ حٰم السجدہ)