أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا
تم جہاں کہیں بھی ہو موت تمہیں آ کر پکڑے گی گو تم مضبوط قلعوں میں ہو (١) اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے (٢) انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں (٣)
[١٠٨] موت اپنے وقت پر ہی آئے گی اور آ کے رہے گی : یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مسلمان تو درکنار کوئی کافر بھی انکار نہیں کرتا۔ یہاں اس حقیقت کے ذکر کا مقصود یہ ہے کہ اگر یہ کمزور دل مسلمان اس حقیقت کو ہر وقت سامنے رکھیں تو لڑائی سے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں کیونکہ موت کا وقت بھی مقرر ہے اور جگہ بھی۔ لہٰذا اگر وہ تمہارا مقدر ہوچکی ہے تو گھر پر بھی یقیناً آ کے رہے گی اور اگر تمہاری زندگی ابھی باقی ہے تو پھر میدان جنگ میں بھی یقیناً موت نہیں آئے گی۔ اور بعض مفسرین کے نزدیک یہ خطاب منافقین کو ہے جو جنگ احد میں شکست دیکھ کر اپنے بھائی بندوں سے کہتے تھے کہ اگر تم ہماری بات مان لیتے تو تمہارے عزیز اس لڑائی میں نہ مارے جاتے۔ اور یہ قول اس لحاظ سے درست معلوم ہوتا ہے کہ اسی آیت میں آگے منافقوں سے ہی خطاب ہے۔ [١٠٩] مصیبت کو رسول کی طرف منسوب کرنے والے :۔ یہ خطاب منافقوں سے ہے جس میں ان کے ساتھی یہود بھی شامل تھے۔ اگر انہیں کوئی راحت اور سکون کے لمحات میسر آتے اور خوشی نصیب ہوتی جیسے غلہ کی ارزانی یا جنگ میں مال غنیمت ہاتھ آتا تو اسے تو اللہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے کہتے کہ یہ اللہ کا فضل و کرم ہے اور اگر کوئی دکھ یا مصیبت پہنچے، تو پھر یہ الزام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لگاتے اور کہتے کہ یہ آپ کی بے تدبیری یا غلط تدبیر کا نتیجہ ہے۔ جیسا کہ جنگ احد کے موقعہ پر شکست سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ اور خود اپنے آپ کو ہر طرح سے بری الذمہ قرار دیتے۔ اگر منافق یوں سمجھتے کہ اگر فتح ہوتی ہے تو وہ بھی آپ کی حسن تدبیر سے آپ کے ذریعہ اور آپ کی برکت سے ہوتی ہے تب بھی بات کسی حد تک درست بن جاتی۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ فائدہ ہو یا نقصان سب کچھ اللہ کی ہی طرف سے ہوتا ہے اور یہ مسلمانوں کے عقیدہ کا ایک اہم جزو ہے اور اس پر واضح دلیل یہی آیت ہے۔ نیز فرمایا ﴿ وَاللّٰہُ خَلَقَکُمْ وَمَا تَعْمَلُوْنَ ﴾ (37: 96) اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا ہے اور ان اعمال کو بھی جو تم کرتے ہو یعنی اگر فائدہ یا تکلیف کو اعمال ہی کا نتیجہ قرار دیا جائے تب بھی چونکہ تمہارے اعمال کا خالق اللہ تعالیٰ ہے لہٰذا نفع و نقصان بھی اللہ ہی کی طرف سے ہوا۔