وَمَا لَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ نَصِيرًا
بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لئے جہاد نہ کرو؟ جو یوں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے حمایتی مقرر کر دے اور ہمارے لئے خاص اپنے پاس سے مددگار بنا (١)
[١٠٤] ہجرت نہ کرسکنے والے :۔ اس آیت میں ان کمزور مسلمانوں، بیواؤں اور بچوں کی طرف اشارہ ہے جو مکہ یا بعض قبائل میں آباد تھے۔ اسلام قبول کرچکے تھے مگر ہجرت کرنے پر قدرت نہ رکھتے تھے اور کافروں کے ظلم و تشدد برداشت کرنے پر مجبور تھے اور اللہ سے دعا کیا کرتے تھے کہ یا اللہ ! ان ظالموں سے رہائی کی کوئی صورت پیدا فرما دے یا ہمارا کوئی حامی و مددگار بھیج جو ہمیں ان ظالموں کے پنجہ سے نکال لے جائے۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے لوگوں کے حق میں نماز میں رکوع سے سر اٹھانے کے بعد دعا فرماتے کہ ’’یا اللہ ! ولید بن ولید، سلمہ بن ہشام، عیاش بن ابی ربیعہ اور دوسرے ناتواں مسلمانوں کو جو مکہ میں ہیں کافروں کی قید سے چھڑا دے۔ یا اللہ ! مضر کے کافروں پر سخت گرفت فرما اور ان پر ایسا قحط بھیج، جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں قحط پڑا تھا۔‘‘ (بخاری، کتاب الادب، باب تسمیۃ الولید) اور سیدنا عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما جب یہ آیت پڑھا کرتے تو کہا کرتے کہ ’’میں اور میری ماں (دونوں مکہ میں) ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اللہ نے معذور رکھا۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) اس آیت میں مسلمانوں کو ایسے ہی کمزور و ناتواں مسلمانوں کی مدد کو پہنچنے اور ایسے ظالموں سے جہاد کر کے انہیں ان کے ظلم سے بچانے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔