وَلَوْ أَنَّا كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ أَنِ اقْتُلُوا أَنفُسَكُمْ أَوِ اخْرُجُوا مِن دِيَارِكُم مَّا فَعَلُوهُ إِلَّا قَلِيلٌ مِّنْهُمْ ۖ وَلَوْ أَنَّهُمْ فَعَلُوا مَا يُوعَظُونَ بِهِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَشَدَّ تَثْبِيتًا
اگر ہم ان پر یہ فرض کردیتے ہیں کہ اپنی جانوں کو قتل کر ڈالو! یا اپنے گھروں سے نکل جاؤ! تو اسے ان میں سے بہت ہی کم لوگ حکم بجا لاتے اور اگر یہ وہی کریں جس کی انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو یقیناً یہی ان کے لئے بہتر اور زیادہ مضبوطی والا ہو (١)
[٩٨] یعنی ایسے منافقین جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فیصلہ کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ اگر ہم کسی بنا پر ان پر قتل واجب کردیتے جیسا کہ بچھڑا پوجنے والوں پر واجب کیا تھا یا یہاں (مدینہ) سے کسی اور جگہ نقل مکانی یا ہجرت کرنے کو کہتے تو اس قسم کی قربانیاں یہ لوگ کیسے بجا لا سکتے تھے؟ اور اگر یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیتے تو ان کی منزل مقصود قریب تر ہوجاتی اور یہ بہرحال فائدہ میں رہتے۔ یہاں دنیا میں بھی باوقار زندگی نصیب ہوتی اور آخرت میں بھی بڑے اجر کے مستحق ہوتے۔