وَأَنَّهُ كَانَ رِجَالٌ مِّنَ الْإِنسِ يَعُوذُونَ بِرِجَالٍ مِّنَ الْجِنِّ فَزَادُوهُمْ رَهَقًا
بات یہ ہے کہ چند انسان بعض جنات سے پناہ طلب کیا کرتے تھے جس سے جنات اپنی سرکشی میں اور بڑھ گئے (١)
[٥] انسانوں کا جنوں سے پناہ مانگنا :۔ عہد جاہلیت میں اکثر لوگوں کا یہ عقیدہ بن چکا تھا کہ ہر غیر آباد جگہ جنوں کا مسکن ہوتا ہے۔ اور ان میں بھی انسانوں کی طرح بعض جن دوسروں کے سردار اور بادشاہ ہوتے ہیں۔ جو وہاں حکومت کرتے ہیں اور اگر کسی انسان کا ایسے علاقہ میں گزر ہو اور اس جن کی پناہ مانگے بغیراس جگہ میں رہائش پذیر ہوجائے جس کے قبضہ میں یہ غیر آباد جگہ ہے تو وہ حاکم جن ایسے انسان یا انسانوں کو علاقہ غیر میں داخل ہونے کی بنا پر سزا دینے اور تکلیف پہنچانے کا حق رکھتا ہے خواہ وہ خود ایسی سزا دے دے یا اپنے ماتحت جنوں سے دلوا دے چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جاہلیت کے زمانہ میں عرب جب کسی سنسان وادی میں رات گزارتے تو پکار کر کہتے کہ ہم اس وادی کے مالک جن کی پناہ مانگتے ہیں، گویا انسان کی اوہام پرستی کا یہ عالم تھی کہ اللہ نے تو اسے اشرف المخلوقات اور جنوں سے بھی افضل پیدا کیا تھا لیکن اس زمین کے خلیفہ انسان نے الٹا جنوں سے ڈرنا اور ان سے پناہ مانگنا شروع کردیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جنوں کا دماغ اور زیادہ خراب ہوگیا اور وہ واقعی اپنے آپ کو انسان سے افضل سمجھنے لگے۔