سورة المعارج - آیت 33

وَالَّذِينَ هُم بِشَهَادَاتِهِمْ قَائِمُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جو اپنی گواہیوں پر سیدھے اور قائم رہتے ہیں۔ (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٠] شہادت کا مفہوم ' اہمیت اور شہادت پر قائم رہنے کی تاکید :۔ شہادت اس بیان کو کہتے ہیں جو ایک گواہ، خواہ وہ عینی گواہ ہو یا بعض حقائق کو علم کی حد تک جانتا ہو جسے قلبی شہادت کہتے ہیں، عدالت میں حاضر ہو کر قاضی کے سامنے دیتا ہے۔ اور قاضی اور عدالت سے مراد ہر وہ فرد یا ادارہ ہے جو فیصلہ کرنے کے بعد اپنے فیصلہ کو نافذ کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہو۔ عدالتوں کے ہاں یہ قوت نافذہ پولیس ہوتی ہے۔ اسی طرح کسی فیصلہ کرنے والی پنچائت یا کونسل کو بھی عدالت کہہ سکتے ہیں اور کوئی گواہ کسی بے تعلق آدمی کے سامنے وہی بیان دے جو وہ عدالت میں دینے کا ارادہ رکھتا ہے۔ تو ایسے بیان دینے کو شہادت نہیں کہیں گے۔ چونکہ شریعت نے فیصلہ کا انحصار شہادتوں پر رکھا ہے۔ اور قاضی شہادتوں سے باہر ہو کر فیصلہ نہیں دے سکتا حتیٰ کہ فوجداری مقدمات میں اپنے ذاتی علم کی بنا پر بھی فیصلہ نہیں دے سکتا۔ اس لئے ایک گواہ کی شہادت بڑی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ اسی لئے قرآن میں بے شمار مقامات پر شہادت صاف صاف دینے اور اس پر قائم رہنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔ اس کے مقابلہ میں شہادت الزور کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔ شہادت کا کچھ حصہ چھپا جانا، یا عند الضرورت شہادت سے انکار کردینا یا خاموش رہنا اور کچھ بھی بیان نہ دینا یا بیان کو گول مول کر جانا یا اس بیان کو اس طرح توڑ موڑ کر یا ہیر پھیر کر بیان کرنا جس سے مجرم بچ جائے یا کسی بھی فریق کی حق تلفی ہو رہی ہو یا جانبداری سے کام لے کر اس کے جرم سے زیادہ سزا دلوانے کی کوشش کی جائے یہ سب صورتیں حرام، گناہ کبیرہ اور شہادۃ الزور کے ضمن میں آتی ہیں۔ گویا ایمانداروں کی ایک نہایت اعلیٰ صفت یہ بھی ہے کہ وہ صاف سیدھی شہادت پر قائم رہتے ہیں۔