سورة المعارج - آیت 24

وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور جن کے مالوں میں مقررہ حصہ ہے (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٦] سوال کرنا صرف تین طرح کے لوگوں کو جائز ہے :۔ سائل سے مراد پیشہ ور گداگر نہیں۔ ایسی گداگری کا اسلام میں کوئی جواز نہیں سائل سے مراد وہ شخص ہے۔ جو فی الواقع مانگنے پر مجبور ہو۔ چنانچہ سیدنا قبیصہ بن مخارق کہتے ہیں کہ میں ایک شخص کا ضامن ہوا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور اس بارے میں سوال کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہاں ٹھہرو تاآنکہ ہمارے پاس صدقہ آئے پھر ہم تیرے لیے کچھ حکم کریں گے۔ پھر مجھے مخاطب کرکے فرمایا : ’’قبیصہ! تین شخصوں کے سوا کسی کو سوال کرنا جائز نہیں۔ ایک وہ جو ضامن ہو اور ضمانت اس پر پڑجائے جس کا وہ اہل نہ ہو۔ وہ اپنی ضمانت کی حد تک مانگ سکتا ہے۔ پھر رک جائے دوسرے وہ جسے ایسی آفت پہنچے جو اس کا سارا مال تباہ کردے۔ وہ اس حد تک مانگ سکتا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کے قابل ہوجائے اور تیسرے وہ شخص جس کو فاقہ کی نوبت آگئی ہو اور اس کے قبیلہ کے تین معتبر شخص گواہی دیں کہ فلاں کو فاقہ پہنچا ہے۔ اسے سوال کرناجائز ہے تاآنکہ اس کی محتاجی دور ہوجائے‘‘ پھر فرمایا : ’’اے قبیصہ ان تین قسم کے آدمیوں کے سوا کسی اور کو سوال کرنا حرام ہے اور ان کے سوا جو شخص سوال کرکے کھاتا ہے وہ حرام کھا رہا ہے۔‘‘ (مسلم۔ کتاب الزکوٰۃ۔ باب من تحل لہ المسئلۃ) نیز سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے۔ وہ دراصل آگ کے انگارے طلب کر رہا ہے اب وہ چاہے تو کم کرے یا زیادہ اکٹھے کر لے‘‘ (بخاری۔ کتاب الوصایا۔ باب تاویل قولہ تعالیٰ من بعد وصیۃ توصون بہا اودین) اور محروم سے مراد وہ شخص ہے جو سوال کرنے کا مستحق ہونے کے باوجود سوال کرنے سے ہچکچاتا ہو۔ جسے ہماری زبان میں سفید پوش کہتے ہیں۔ علاوہ ازیں محروم سے مراد وہ شخص بھی ہے جو روزگار کی تلاش میں ہو اور روزگار اسے میسر نہ آرہا ہو یا جتنی روزی کما رہا ہے اس سے اس کی ضروریات پوری نہ ہوتی ہوں یا روزی کمانے کے قابل ہی نہ ہو۔ جیسے بوڑھا، بیمار، اندھا، لنگڑا، اپاہج وغیرہ۔