سورة النسآء - آیت 46

مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ وَيَقُولُونَ سَمِعْنَا وَعَصَيْنَا وَاسْمَعْ غَيْرَ مُسْمَعٍ وَرَاعِنَا لَيًّا بِأَلْسِنَتِهِمْ وَطَعْنًا فِي الدِّينِ ۚ وَلَوْ أَنَّهُمْ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا وَاسْمَعْ وَانظُرْنَا لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ وَأَقْوَمَ وَلَٰكِن لَّعَنَهُمُ اللَّهُ بِكُفْرِهِمْ فَلَا يُؤْمِنُونَ إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بعض یہود کلمات کو ان کی ٹھیک جگہ سے ہیر پھیر کردیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے سنا اور نافرمانی کی اور سن اس کے بغیر کہ تو سنا جائے (١) اور ہماری رعایت کر (لیکن اس کہنے میں) اپنی زبان کو پیچ دیتے ہیں اور دین میں طعنہ دیتے ہیں اور اگر یہ لوگ کہتے کہ ہم نے سنا اور ہم نے فرمانبرداری کی آپ سنیے ہمیں دیکھیے تو یہ ان کے لئے بہت بہتر اور نہایت ہی مناسب تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے کفر سے انہیں لعنت کی ہے پس یہ بہت ہی کم ایمان لاتے ہیں۔ (٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٧۔ الف] تورات عبرانی زبان میں نازل ہوئی تھی لیکن اصل تورات تو دو دفعہ گم ہوئی۔ پھر مختلف زبانوں میں اس کے تراجم پر انحصار کیا گیا۔ آج کل تورات اور انجیل کے مجموعہ کو بائیبل مقدس کا نام دیا گیا ہے۔ تورات کے حصہ کو عہد نامہ عتیق اور انجیل کے حصہ کو عہد نامہ جدید کہتے ہیں۔ ان میں تحریف کے علاوہ بہت سے الحاقی مضامین بھی شامل ہوچکے ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت الہامی نہیں ہو سکتی۔ جیسا کہ درج ذیل عبارتوں سے معلوم ہوتا ہے : ١۔ ’’سو موسیٰ خداوند کا بندہ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا۔ اسے اس نے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گاڑا۔ پر آج کے دن تک کوئی اس کی قبر کو نہیں جانتا‘‘ (کتاب استثناء باب ٣٤) اس عبارت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب الٰہی کا حصہ نہیں بلکہ الحاقی مضمون ہے جو سیدنا موسیٰ کی وفات سے مدتوں بعد بائیبل میں شامل کردیا گیا۔ ٢۔ ’’پھر بنی اسرائیل نے کوچ کیا اور اپنا خیمہ عیدر کے ٹیلے کے اس پار ایستادہ کیا۔‘‘ (کتاب پیدائش باب ٣٥، آیت ٢١) یہ عبارت اس لیے الحاقی ہے کہ عیدر اس منارہ کا نام ہے جو شہر یروشلم کے دروازہ پر تھا اور یہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے کئی سو سال بعد بنایا گیا تھا۔ ٣۔ ’’خداوند نے بنی اسرائیل کی آواز سنی اور کنعانیوں کو گرفتار کروا دیا اور انہوں نے انہیں اور ان کی بستیوں کو حرام کردیا اور اس نے اس مکان کا نام حرمہ رکھا۔‘‘ (کتاب گنتی باب ٢١، آیت ٣) یہ عبارت بھی الہامی نہیں کیونکہ یہ واقعہ تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام تو درکنار سیدنا یوشع علیہ السلام کے بھی بعد پیش آیا۔ کیونکہ موسیٰ علیہ السلام تو اپنی زندگی میں کنعان تک پہنچے بھی نہیں تھے۔ بستیوں کو حرام کیسے قرار دے دیا؟ اس کے جواب میں اکثر اہل کتاب کے علماء یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ جملے الحاقی ہیں اور ان کو سیدنا عزیر علیہ السلام نے ملا دیا ہے لیکن اس کی سیدنا عزیر علیہ السلام نے کوئی تصریح نہیں کی کہ یہ میرا کلام ہے۔ علاوہ ازیں کلام کے تسلسل سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلام متصل ہے۔ یہ مقامات تو ایسے ہیں جو تاریخی لحاظ سے بھی غلط ثابت ہوتے ہیں لیکن بائیبل کی اکثر عبارتیں ایسی ہیں جو اللہ کا کلام نہیں بلکہ کسی دوسرے کا کلام معلوم ہوتی ہیں۔ مثلاً : ٤۔ کتاب خروج باب ٢ کی آیت نمبر ١١ یوں ہے۔ ’’ان روزوں میں یوں ہوا کہ جب موسیٰ بڑا ہوا‘‘ غور فرمائیے یہ اللہ کا کلام معلوم ہوتا ہے یا کسی سوانح نگار کا ؟ اسی طرح اسی کتاب اور اسی باب کی آیت نمبر ١٥ یوں ہے۔ ’’جب فرعون نے یہ سنا تو چاہا کہ موسیٰ کو قتل کر دے پر موسیٰ فرعون کے حضور سے بھاگا۔‘‘ غرضیکہ ان کتابوں کی بے شمار آیات ایسی ہیں جن سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام نہیں ہو سکتیں، اور نہ وہ انبیاء کا کلام ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ بہت مدت بعد کسی سوانح نگار نے یہ حالات قلمبند کیے۔ پھر انہیں بھی کتاب مقدس میں شامل کردیا گیا تھا۔ [٧٨] یہود کی شرارتیں : جو یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں آیا کرتے تھے ان کی تین طرح کی حرکتوں کا ان آیات میں ذکر ہوا ہے۔ ایک یہ کہ جب وہ کوئی حکم الٰہی سنتے تو بلند آواز سے تو 'سَمِعْنَا'کہتے مگر آہستہ آواز سے یا دل میں 'عَصَیْنَا'(یعنی ہم مانیں گے نہیں) کہہ دیتے۔ یا'اَطَعْنَا ' کے لفظ کو ہی زبان کو موڑ دے کر یوں ادا کرتے کہ وہ 'اَطَعْنَا ' کی بجائے' عَصَیْنَا ' ہی سمجھ میں آتا۔ (٢) 'اِسْمَعْ ' (ہماری بات سنیے) یعنی جب کوئی بات ان کی سمجھ میں نہ آتی اور کچھ پوچھنا درکار ہوتا تو 'اِسْمَعْ ' کہتے اور ساتھ ہی'غَیْرَ مُسْمَعٍ ' بھی دل میں کہہ دیتے (یعنی تم سن ہی نہ سکو یا بہرے ہوجاؤ) (٣) اور کبھی 'اِسْمَعْ' کی بجائے 'رَاعِنَا ' کہتے اور زبان کو موڑ دے کر 'رَاعِیْنَا ' (ہمارے چرواہے) کہہ دیتے۔ پھر آپس میں یہ بھی کہا کرتے کہ اگر یہ فی الواقع نبی ہوتا تو اسے ہماری ان باتوں پر اطلاع ہوجانا یقینی تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کی ایسی شرارتوں اور خباثتوں سے مطلع کردیا اور ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ جو لوگ اپنی ضلالت میں اس درجہ پختہ ہوچکے اور ہٹ دھرم بن چکے ہیں ان سے ایمان لانے کی توقع عبث ہے۔ الا ماشاء اللہ