سورة القلم - آیت 48

فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تَكُن كَصَاحِبِ الْحُوتِ إِذْ نَادَىٰ وَهُوَ مَكْظُومٌ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

بس تو اپنے رب کے حکم کا صبر سے انتظار کر اور مچھلی والے کی طرح نہ ہوجا جب (١) کہ اس نے غم کی حالت میں دعا کی (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٤] یعنی جس طرح سیدنا یونس علیہ السلام نے اپنی قوم کی مخالفت سے تنگ آکر بے صبری کا مظاہرہ کیا تھا۔ انہیں وحی الٰہی کا انتظار کیے بغیر خود ہی عذاب کی دھمکی دے دی تھی اور پھر وہاں سے چل دیئے تھے۔ آپ کو ایسا نہ کرنا چاہیے بلکہ قوم کی ایذاؤں، مذاق و تمسخر اور مخالفت کو صبر کے ساتھ برداشت کیجئے۔ اور اس وقت تک صبر کیجئے جب تک کہ آپ کو یہاں سے ہجرت کا حکم نہ مل جائے۔ [٢٥] سیدنا یونس کو کون کون سی پریشانیاں لاحق تھیں جن سے وہ گلے تک بھرے ہوئے تھے :۔ مَکْظُوْمٍ۔ کظم سانس کی نالی کو کہتے ہیں اور کظم السقاء بمعنی مشک کو پانی سے لبالب بھر کر اس کا منہ بند کردینا۔ اور کظیم اور مکظوم اس شخص کو کہتے ہیں جو غم یا غصہ سے سانس کی نالی تک بھرا ہوا ہو مگر اس کا اظہار نہ کرے اور اسے دبا جائے۔ مچھلی کے پیٹ میں وظیفہ :۔ اس آیت میں سیدنا یونس علیہ السلام کی وہ کیفیت بیان کی گئی ہے جب وہ مچھلی کے پیٹ میں چلے گئے تھے۔ اس وقت آپ کئی قسم کے غموں کا مجموعہ بنے ہوئے تھے۔ مثلاً قوم کے ایمان نہ لانے کا غم۔ آپ کے بتاتے ہوئے وعدہ عذاب پر عذاب نہ آنے کا غم، اللہ تعالیٰ کے واضح حکم کے بغیر قوم کو چھوڑ کر چلے آنے کا غم، پھر مچھلی کے پیٹ میں چلے جانے کا غم، ان تمام پریشانیوں اور غموں سے نجات کی واحد صورت آپ کو یہی نظر آئی کہ اللہ کی تسبیح و تہلیل کریں اور اپنے گناہوں کی اللہ سے معافی طلب کریں۔ چنانچہ آپ جب تک مچھلی کے پیٹ میں رہے ﴿لَّآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنْتَ سُبْحٰــنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ ﴾پڑھتے رہے۔ تاآنکہ اللہ نے آپ کو اس مصیبت سے نجات دے دی۔