وَمَاذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللَّهُ ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِهِمْ عَلِيمًا
بھلا ان کا کیا نقصان تھا اگر یہ اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان لاتے اور اللہ تعالیٰ نے جو انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے اللہ تعالیٰ انہیں خوب جاننے والا ہے۔
[٧٢] یعنی اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہوئے اللہ ہی کے دیئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتے تو ان کا نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہی تھا کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی احسان شناسی بھی ہے اور آخرت میں سینکڑوں گنا اجر بھی۔ نقصان تو اس صورت میں ہے کہ مال بھی ہاتھ سے نکل گیا اور اس کا کچھ ثواب ملنا تو درکنار الٹا عذاب ہوگا اور ریاکار کا یہی انجام ہوگا۔ آخرت کے منکر خسارہ میں ہیں :۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ انہیں کسی کافر نے کہا کہ جس آخرت پر تم ایمان لاتے ہو وہ محض ایک مفروضہ ہے جسے تم یقینی طور پر ثابت نہیں کرسکتے۔ پھر اس مفروضہ کی بنا پر مختلف قسم کی پابندیاں اپنے آپ پر عائد کرتے ہو مال خرچ کرتے ہو پھر ہر طرح کے لذائذ دنیا سے محروم رہتے ہو۔ یہ تو صریح نقصان کی بات ہے، آپ رضی اللہ عنہ نے اسے جواب دیا کہ ہم جتنا وقت اللہ کی عبادت میں رہتے ہیں یہ تو یقینی بات ہے کہ کم از کم اتنی دیر ہم بری باتوں اور برے کاموں سے بچے رہتے ہیں۔ اور اگر مال خرچ کرتے ہیں تو اس کا بھی کسی ضرورت مند کو ضرور فائدہ پہنچتا ہے۔ پھر ہمیں ان کاموں سے خوشی بھی حاصل ہوتی ہے۔ رہے لذائذ دنیا اور ان سے مزے اڑانے کی بات، تو یہ چند دنوں کی بات ہے۔ موت کے بعد ہم اور تم برابر ہوئے۔ مرنے کے بعد اگر ہمارا نظریہ درست ثابت ہوا تو جاودانی راحتوں اور نعمتوں کے مستحق ہوں گے اور تمہیں کئی طرح کے مصائب اور جہنم کا عذاب ہوگا اور یہ دائمی عذاب ہوگا۔ اور اگر بالفرض تمہارا نظریہ درست نکلا تو بتاؤ ہمارا کیا بگڑے گا ؟ لہٰذا اچھی طرح سوچ لو کہ خطرے میں ہم لوگ ہیں یا تم لوگ؟ یہ سن کر اسے ہوش آ گیا اور وہ ایمان لے آیا۔