الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
جو لوگ خود بخیلی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی بخیلی کرنے کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے جو اپنا فضل انہیں دے رکھا ہے اسے چھپا لیتے ہیں ہم نے ان کافروں کے لئے ذلت کی مار تیار کر رکھی ہے۔
[٧٠] ایسے بڑ مارنے والوں کی ایک صفت یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اللہ نے انہیں اپنے فضل سے عطا کر رکھا ہے، اسے چھپاتے ہیں۔ اس عطیہ الہی سے مراد علم بھی ہوسکتا ہے اور دولت بھی۔ یہ آیت اگرچہ یہود کے حق میں نازل ہوئی ہے جو ہر اس آیت کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے جو ان کی اپنی وضع کردہ شریعت یا ان کے مذہب کے خلاف ہوتی تھی۔ اور سودخوری اور حرام خوری کی وجہ سے بخل بھی ان کی رگ رگ میں سرایت کرچکا تھا۔ تاہم اس آیت کا حکم عام ہے اور مسلمانوں پر بھی لاگو ہے۔ مسلمانوں میں سے ہر فرقہ ہر اس آیت یا حدیث کو اپنے پیرو کاروں سے چھپانے کی کوشش کرتا ہے جو اس کے مسلک و مذہب کے خلاف جاتی ہو۔ الاماشاء اللہ۔ بخل کی مذمت :۔ مسلمانوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں اللہ نے بہت کچھ مال و دولت دے رکھا ہے۔ لیکن وہ اپنی حیثیت کے مطابق نہ اپنی ذات پر خرچ کرتے ہیں نہ اہل و عیال پر نہ اللہ کی راہ میں اس کے حکم کے مطابق خرچ کرتے ہیں اور نہ ہی اقرباء کی امداد کرتے ہیں۔ اور اپنی حیثیت سے گر کرخستہ حالی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ یہ انتہا درجہ کا بخل دراصل اللہ کی نعمتوں کی ناشکری ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ جب کسی بندے کو نعمت عطا کرتا ہے تو وہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس نعمت کا اثر بندے پر ظاہر ہو۔ یعنی اس کی طرز بود و باش، لباس، خوراک اور صدقہ و خیرات غرض ہر چیز سے اللہ کی دی ہوئی نعمت کا اظہار ہوتا رہے اسی لیے ان ہر دو قسم کے بخل کو ناشکری یا کفر سے تعبیر کیا گیا اور بتایا گیا ہے کہ انہیں ذلت کا عذاب ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں اور مال و دولت کو دوسروں سے چھپانے کا مرض اس قدر عام ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو نہ اپنے پورے ذرائع آمدنی بتاتا ہے اور نہ آمدنی۔ اور یہ بات پردہ راز میں رہتی ہے کہ کسی کے پاس کیا کچھ موجود ہے۔ موجودہ دور میں بنک بھی اس معاملہ اخفاء میں اپنے کھاتہ داروں کی پوری پوری امداد کرتے ہیں۔ ان کے پاس لوگوں کی جو رقوم جمع ہوتی ہیں ان کو صیغہ راز میں رکھنا بنکوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے کا بنک بیلنس معلوم نہیں کرسکتا اور نہ ہی بنک والے اسے بتاتے ہیں۔ الا یہ کہ کھاتہ دار خودکسی کو تحریری طور پر بنک بیلنس معلوم کرنے کا اختیار دے دے۔