فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوا وَأَطِيعُوا وَأَنفِقُوا خَيْرًا لِّأَنفُسِكُمْ ۗ وَمَن يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو اور سنتے اور مانتے چلے جاؤ (١) اور اللہ کی راہ میں خیرات کرتے رہو جو تمہارے لئے بہتر ہے جو شخص اپنے نفس کی حرص سے محفوظ رکھا جائے وہی کامیاب ہے۔
[٢٤] مؤاخذہ صرف اس حد تک ہوگا جہاں تک انسان کا اختیار ہے :۔ اس جملہ سے معلوم ہوا کہ انسان گناہوں سے اجتناب اور اوامر کی تکمیل میں اسی حد تک مکلف ہے جس قدر اس کی استطاعت ہے اسی مضمون کو سورۃ بقرہ میں یوں بیان فرمایا۔﴿لَا یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَہَا﴾ (۲۸۲:۲)یعنی جس مقام پر انسان مجبور ہوجائے وہاں اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔ مواخذہ صرف اس صورت میں ہے کہ جہاں انسان استطاعت رکھنے کے باوجود اللہ کی اطاعت نہ کرے۔ رہی یہ بات کہ انسان اپنے متعلق کوئی غلط اندازہ قائم کرلے۔ مثلاً وہ یہ فرض کرلے کہ فلاں کلام میری استطاعت سے باہر ہے۔ حالانکہ وہ اسکی استطاعت میں ہو۔ تو ایسی بات پر اس کا ضرور مواخذہ ہوگا۔ کیونکہ اللہ کو ہر بات کا علم ہے۔ [٢٥] اس کی تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ حشر کی آیت نمبر ٩ کا حاشیہ۔