هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ فَمِنكُمْ كَافِرٌ وَمِنكُم مُّؤْمِنٌ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
اسی نے تمہیں پیدا کیا سو تم میں سے بعضے تو کافر ہیں اور بعض ایماندار ہیں اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ تعالیٰ خوب دیکھ رہا ہے۔ (١)
[٣] اس آیت کے کئی مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ پیدا تو تمہیں اللہ نے کیا ہے پھر کوئی تو یہ بات تسلیم کرلیتا ہے کہ واقعی ہمارا خالق اللہ ہے اور کوئی یہ بات بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ وہ سرے سے اللہ کی ہستی کا انکار کردیتا ہے کہ ہم تو زمانہ کی گردش کے تحت پیدا ہوتے اور مرتے رہتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ اللہ نے انسان کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا تھا۔ کہ وہ بھی اللہ کی باقی تمام مخلوق کی طرح اس کا مطیع و منقاد بن کر رہے۔ لیکن کچھ لوگ تو اس فطرت سلیمہ پر قائم رہتے ہیں اور کچھ ماحول سے متاثر ہو کر کفر کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں اور اس مطلب کی توثیق اس ارشاد نبوی سے ہوجاتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ : ’’(انسان کا) ہر بچہ فطرت (سلیمہ) پر پیدا ہوتا ہے۔ پھر اس کے والدین اسے یہودی یا نصرانی (وغیرہ) بنا دیتے ہیں‘‘ (بخاری۔ کتاب القدر۔ باب جف القلم علیٰ علم اللّٰہ۔۔) اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو قوت ارادہ و اختیار اور عقل و تمیز دے کر پیدا کیا تھا۔ اب جو شخص ان اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا غلط استعمال کرتا ہے۔ وہ کفر کی راہ پر جا پڑتا ہے اور جو صحیح استعمال کرتا ہے۔ وہی مومن ہوتا ہے۔ [٤] صرف دیکھتا ہی نہیں بلکہ اس کی تمہیں جزا یا سزا بھی دے گا۔ وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ اگر کسی مومن نے کوئی نیک کام کیا تھا تو اس میں خلوص نیت کا کتنا حصہ تھا۔ اسی کے مطابق وہ اس کی جزا میں کمی یا اضافہ بھی کرے گا۔