سورة المنافقون - آیت 4

وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جب آپ انہیں دیکھ لیں تو ان کے جسم آپ کو خوشنما معلوم ہوں (١) یہ جب باتیں کرنے لگیں تو آپ ان کی باتوں پر (اپنا) کان لگائیں (٢) گویا کہ یہ لکڑیاں ہیں اور دیوار کے سہارے لگائی ہوئی (٣) ہیں ہر سخت آواز کو اپنے خلاف سمجھتے ہیں (٤) یہی حقیقی دشمن ہیں ان سے بچو اللہ انہیں غارت کرے کہاں سے پھرے جاتے ہیں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥] منافقوں کی عادات اور خصائل :۔ منافقوں کا رئیس عبداللہ بن ابی بن سلول معاشی لحاظ سے بھی رئیس تھا دیکھنے میں بڑا خوبصورت اور لمبے قدوقامت والا جوان تھا۔ جنگ بدر کے قیدیوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا سیدنا عباس ننگے تھے تو اسی کی قمیص ان کو پوری آسکتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی سے مانگی تو اس نے دے دی تھی۔ اسی بات کا معاوضہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت دیا تھا جب عبداللہ بن ابی مرا تھا۔ اور اس کے بیٹے عبداللہ نے جو سچا مسلمان تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ التجا کی تھی کہ آپ اگر اپنی قمیص دے دیں تو میں یہ اپنے باپ کو پہنا دوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دے دی تھی۔ لسان بھی تھا۔ باتیں کرنے کا اور باتوں سے خوش اور مطمئن کرنے کا اسے ڈھنگ آتا تھا۔ باتیں کرتا تو جی چاہتا تھا کہ اس کی باتیں سنتے ہی رہیں۔ اس کے کچھ خاص مصاحب بھی ایسی ہی صفات کے مالک تھے۔ [٦] یہ لوگ جب آپ کی مجلس میں آتے تو کسی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے۔ دراصل وہ یہ کام اپنی برتری اور شان بے نیازی جتلانے کے لیے کرتے تھے۔ اور اللہ نے ان کو لکڑیوں سے تشبیہ اس لحاظ سے دی کہ لکڑیوں میں سننے، سوچنے سمجھنے کی اہلیت نہیں ہوتی۔ اسی طرح یہ لوگ بس دکھاوے کی خاطر آ تو جاتے ہیں۔ مگر نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو دھیان سے سنتے ہیں اور کچھ سن بھی پائیں تو اسے سمجھنے اور سوچنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے اور جیسے آئے تھے ویسے ہی دامن جھاڑ کر چلے جاتے ہیں۔ ہدایت کی کوئی بات قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔ [٧] بزدل اور ڈرپوک ایسے ہیں کہ ادھر کوئی پتا کھٹکا ادھر ان کا دل دہل گیا۔ ایک عادی مجرم کی طرح انہیں ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں ہمارا فلاں راز فاش تو نہیں ہو چلا، یا فلاں حرکت پر گرفت تو نہیں ہونے لگی۔ [٨] کیونکہ یہ لوگ گھر کے بھیدی اور آستین کے سانپ ہیں۔ تمہاری سب باتیں دشمنوں تک پہنچاتے اور ہر کام سے انہیں باخبر رکھتے ہیں۔ یہ لوگ تمہارے ظاہری دشمنوں یعنی یہود' کفار مکہ اور مشرکین سب سے زیادہ خطرناک ہیں۔ لہٰذا ان سے سخت محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔