يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَىٰ أَن لَّا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِينَ وَلَا يَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے پیغمبر! جب مسلمان عورتیں آپ سے ان باتوں پر بیعت کرنے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا کاری نہ کریں گی، اپنی اولاد کو نہ مار ڈالیں گی اور کوئی ایسا بہتان نہ باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھوں پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور کسی نیک کام میں تیری بے حکمی نہ کریں گی تو آپ ان سے بیعت کرلیا کریں (١) اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔
[٢٥] عورتوں کی بیعت کن باتوں پر :۔ یعنی امتحان کے بعد ان مہاجر عورتوں کو نیز عام مسلمان عورتوں کو بیعت کا حکم ہوا۔ اور یہ بیعت صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیں گے۔ کیونکہ اس آیت کے مخاطب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں۔ اور جن گناہوں سے اجتناب پر بیعت لی جائے گی وہ سب کبیرہ گناہ ہیں۔ ان میں سب سے بڑا گناہ تو شرک ہے جو بالخصوص اللہ کے حق سے تعلق رکھتا ہے۔ دوسرے سب گناہ حدی جرائم ہیں۔ اور حقوق العباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان پانچ گناہوں میں سے شرک کے علاوہ باقی چار گناہ ایسے ہیں جن پر حد لگتی ہے۔ یہ تو وہ گناہ ہیں جن کا ذکر قرآن میں آیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی آپ کئی ایسے گناہ کے کاموں سے اجتناب پر بیعت لیتے تھے جن کا ذکر احادیث میں مذکور ہے۔ اور یہ سب ایسے جرائم ہیں جن کا عرب میں عام رواج تھا۔ [٢٦] جیسا کہ جاہلیت میں رواج تھا کہ رسمی ننگ و عار کی وجہ سے لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ یا فقر و فاقہ کے خوف کی وجہ سے لڑکیوں کے علاوہ لڑکوں کو بھی مار ڈالتے تھے۔ نیز اس میں اسقاط حمل بھی شامل ہے۔ خواہ یہ جائز حمل کا اسقاط ہو یا ناجائز حمل کا۔ [٢٧] بہتان کی قسمیں :۔ اس بہتان کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ ایک تو معروف و مشہور ہے یعنی کوئی عورت دوسری عورت پر کسی غیر مرد سے آشنائی کا الزام لگا دے جسے عموماً تہمت کہا جاتا ہے۔ دوسری یہ کہ خود زانیہ ہو، بچہ تو کسی دوسرے کا جنے اور شوہر کو یہ یقین دلائے کہ یہ تیرا ہی ہے۔ تیسری یہ کہ کسی دوسری عورت کی اولاد لے کر مکروفریب سے اپنی طرف منسوب کرلے۔ [٢٨] بیعت کا سلسلہ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ امت کا امیر اور دوسرے بزرگ حضرات بھی بیعت لے سکتے ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے ساتھ معروف کی شرط بھی لگا دی۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ناممکن تھا کہ آپ کسی غیر معروف یا معصیت کے کام پر بیعت لیں اس سلسلہ میں آپ نے ایک واضح قانون ان الفاظ میں ارشاد فرمایا کہ (لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف) (متفق علیہ) یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا کام ہو تو کسی کی بھی اطاعت ضروری نہیں۔ اطاعت صرف بھلائی کے کاموں میں ہوتی ہے۔ اس آیت سے دوسری بات جو مستنبط ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کی ہر بات واجب الاتباع ہے خواہ اس کا ذکر قرآن میں موجود ہو یا نہ ہو۔ [٢٩] عورتوں سے بیعت کا طریقہ :۔ آپ جب مردوں سے بیعت لیتے تو بیعت کرنے والا ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد کرتا تھا۔ لیکن عورتوں کے لیے یہ طریقہ نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا، کبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے عہد لے کر کہہ دیتے کہ بس تمہاری بیعت ہوگئی۔ اور کبھی ایک چادر کا ایک سرا آپ پکڑے دوسرا بیعت کرنے والی عورت پکڑ کر عہد کرتی اور کبھی آپ پانی کے کسی پیالہ وغیرہ میں ہاتھ ڈالتے۔ پھر بیعت کرنے والی عورت دوسرے سرے سے ڈال دیتی اور جن باتوں پر آپ عورتوں سے یا مردوں سے بیعت لیتے رہے اس کی تفصیل کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : بیعت سے متعلق چند احادیث :۔ ١۔ سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ جو عورتیں ہجرت کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت کے مطابق ان کا امتحان لیتے۔ پھر جو عورت ان شرطوں کو قبول کرتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم زبان سے ہی فرما دیتے کہ میں نے تجھ سے بیعت کی۔ اللہ کی قسم! بیعت لیتے وقت آپ کے ہاتھ نے کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ میت پر نوحہ کی مخالفت :۔ سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بیعت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی آیت سنائی۔ پھر ہم کو مردے پر نوحہ کرنے سے منع فرمایا تو ایک عورت (یہ خود ام عطیہ ہی تھی) نے اپنا ہاتھ روکے رکھا اور کہنے لگی : فلاں عورت نے نوحہ کرنے میں میری مدد کی تھی میں اس کا بدلہ اتار لوں۔ یہ سن کر آپ خاموش رہے۔ وہ چلی گئی۔ پھر (نوحہ کرکے) واپس آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے بیعت لے لی۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے ہیں کہ میں نے عید کی نماز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، ابو بکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ اور عثمان رضی اللہ عنہ سب کے ساتھ پڑھی۔ آپ خطبہ سے پہلے نماز پڑھاتے پھر اس کے بعد خطبہ سناتے تھے۔ خطبہ کے بعد آپ منبر سے اترے گویا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ ہاتھ کے اشارے سے لوگوں کو بٹھا رہے تھے۔ پھر ان کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھے عورتوں کے پاس آئے۔ بلال رضی اللہ عنہ آپ کے ساتھ تھے۔ اور ان کے سامنے یہ (بیعت والی) پوری آیت پڑھی۔ اس سے فراغت کے بعد عورتوں سے پوچھا : ’’کیا ان شرطوں پر قائم ہوتی ہو؟‘‘ ایک عورت کے سوا کسی نے کوئی جواب نہ دیا (شرما گئیں) اس عورت (اسما بنت یزید) نے کہا : ہاں یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد آپ نے ان سے کہا کہ وہ صدقہ کریں۔ بلال رضی اللہ عنہ نے اپنا کپڑا بچھا دیا۔ اور وہ چھلے اور انگوٹھیاں بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں۔ (حوالہ ایضاً) ٤۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لیلۃ العقبہ) میں ہم سے فرمایا : تم مجھ سے ان باتوں پر بیعت کرتے ہو۔ ( أنْ لاَ تُشْرِکُوْا باللّٰہِ شَیْئًا وَلاَ تَزْنُوْا وَلاََ تَسْرِقُوْا) پھر جو ان شرطوں کو پورا کرے اس کا ثواب اللہ پر ہے اور جو کوئی کام کر بیٹھے پھر اس پر حد لگ جائے تو وہ اس کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا اور اگر کوئی گناہ کر بیٹھے اور اللہ اس کا گناہ چھپا دے تو پھر قیامت کے دن اللہ اگر چاہے تو اسے سزادے اور چاہے تو معاف کردے۔ (حوالہ ایضاً) بیعت کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد ہوا کہ آپ ان بیعت کرنے والیوں کے حق میں دعائے مغفرت بھی کیا کریں۔ کہ ان امور میں ان سے جو کو تاہیاں پہلے ہوچکی ہیں۔ یا آئندہ اس عہد کی تعمیل میں کچھ تقصیر رہ جائے تو اللہ انہیں معاف فرما دے۔