سورة الممتحنة - آیت 8

لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی (١) اور تمہیں جلا وطن نہیں کیا (٢) ان کے ساتھ سلوک و احسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا (٣) بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ (٤)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨] لڑنے کا حکم صرف ان کافروں سے ہے جو دکھ پہنچاتے اور معاندانہ سرگرمیوں میں مشغول ہوں۔ عام کافروں سے نہیں 'محض کفر لڑائی کا سبب نہیں بن سکتا :۔ اس آیت کی رو سے اللہ تعالیٰ نے کافروں کو دو گروہوں میں تقسیم فرمایا ہے۔ ایک وہ جو معاند تھے۔ مسلمانوں کو ایذائیں پہنچاتے، اسلام کی راہ روکتے اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرنے میں سرگرم تھے۔ دوسرے مسالم جو کافر تو تھے مگر روادار تھے۔ غیر جانبدار بن کر رہے۔ مسلمانوں کو نہ کوئی دکھ پہنچایا نہ ان کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ لیا۔ اور یہ دونوں قسم کے لوگ مکہ میں بھی رہتے تھے اور ارد گرد بھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کے لیے الگ الگ احکام بیان فرمائے۔ پہلی قسم کے لوگوں سے سلوک کا بیان ابتدائے سورۃ سے چلا آرہا ہے۔ رہے دوسری قسم کے بے ضرر قسم کے کافر تو ان کے ساتھ رواداری کا حکم فرمایا۔ یعنی ان سے تم کو بھی عداوت نہ رکھنی چاہئے۔ اور رشتہ داری کے حقوق کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور ان سے بہتر سلوک کرنا چاہئے۔ کیونکہ انصاف کا یہی تقاضا ہے کہ ان دونوں سے سلوک میں فرق رکھا جائے۔ اس سے دو اہم باتوں کا پتہ چلتا ہے ایک یہ کہ مسلمانوں کی عداوت کی بنیاد محض کفر نہیں بلکہ اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں ہیں۔ اسی وجہ سے اسلام نے دوران جنگ بچوں، بوڑھوں، عورتوں، عبادت گزار اور درویش قسم کے لوگوں اور جنگ میں شریک نہ ہونے والے کافروں کو قتل کرنے سے منع فرما دیا ہے۔ اور دوسری یہ کہ اسلام ایک حق پسند، انصاف پسند اور امن پسند دین ہے۔ جو صرف ان لوگوں سے تعرض کرتا ہے۔ جو اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے ہیں یا اس کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔