هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ الْمَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ ۚ سُبْحَانَ اللَّهِ عَمَّا يُشْرِكُونَ
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، بادشاہ، نہایت پاک، سب عیبوں سے صاف، امن دینے والا، نگہبان، غالب زورآور، اور بڑائی والا، پاک ہے اللہ ان چیزوں سے جنہیں یہ اس کا شریک بناتے ہیں۔
[٢٩] آیت نمبر ٢٢ سے ٢٤ تک، تین آیات میں اللہ تعالیٰ کی بہت سی جامع صفات بیان کردی گئی ہیں۔ تاکہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی پوری معرفت حاصل ہو اور وہ خود فراموشی یا غفلت سے بچا رہے۔ چند نام تو آیت ٢٢ میں گزر چکے ہیں۔ مزید جو بیان ہوئے وہ یہ ہیں : [٣٠] الملک یعنی علی الاطلاق بادشاہ، کسی مخصوص علاقے، ملک یا پوری زمین کا ہی نہیں، بلکہ پوری کائنات کا بادشاہ، اور بادشاہ کو یہ اختیار ہوتا ہے کہ اپنی مملکت میں جو قانون چاہے رائج کرے اور اس کو نافذ کرے اور اس کی رعایا یا مملوک اس قانون کو تسلیم کرنے اور اس پر عمل کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ پوری کائنات میں قانونی حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وہی مقتدراعلیٰ (Sovereign) ہے۔ اسی کی حاکمیت اور اسی کا قانون سب سے بالاتر ہے۔ [٣١] القُدُّوْسُ۔ قَدُسَ کے معنی پاک و صاف ہونا ہے اور قدوس سے مراد وہ ذات ہے جو اضداد اور انداد (جمع ند بمعنی شریک) سے پاک ہو۔ (مقائیس اللغۃ) اور صاحب منجد کے نزدیک وہ ذات جو ہر بری بات اور نقص سے پاک ہو اور بابرکت بھی ہو۔ [٣٢] السَّلاَمُ۔ سلم یعنی بے گزند اور درست۔ صحیح و سالم اور بمعنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک اور محفوظ رہنا اور سلم ایسی چیز جو اپنی ذات میں درست بھی ہو اور اس پر کسی دوسرے کا کوئی حق نہ ہو۔ اور السلام کے معنی سراسر سلامتی ہی سلامتی۔ اس میں از خود مبالغہ پیدا ہوجاتا ہے جیسے کسی حسین کو یہ کہہ دیا جائے کہ وہ سراپا حسن ہے۔ سلام کا ایک مطلب تو مندرجہ معنی سے واضح ہے اور دوسرا مطلب یہ کہ وہ دوسروں کو بھی سلامتی عطا کرنے والا ہے۔ [٣٣] المؤمن۔ اَمَنَ بمعنی خوف و خطر سے محفوظ ہونا اور مؤمن کے معنی دوسروں کو امان دینے والا۔ امن عطا کرنے والا۔ یعنی ایسا قانون دینے والا جس سے فساد فی الارض کے بجائے امن و امان قائم ہو نیز مخلوق اللہ کی طرف سے کسی قسم کی حق تلفی، زیادتی یا ظلم کے خوف سے مکمل طور پر امن میں رہے۔ بعض مفسرین کے نزدیک اس کے معنی مصدق کے ہیں۔ یعنی اپنی اور اپنے رسولوں کی قولاً اور فعلاً تصدیق کرنے والا یا مومنوں کے ایمان پر مہر تصدیق ثبت کرنے والا ہے۔ [٣٤] اسمائے حسنیٰ کی لغوی تشریح :۔ المُھَیْمِنُ کہتے ہیں ھَیْمَنَ الطائرُ علٰی فَراخِہٖ یعنی پرندے نے اپنے پر اپنے بچے پر بچھا دیئے۔ جیسے مرغی خطرہ کے وقت اپنے چوزوں کو اپنے پروں کے نیچے چھپا لیتی ہے۔ لہٰذا مہیمن وہ ذات ہے جو (١) کسی کو خوف سے امن دے، (٢) ہر وقت نگہبانی رکھے اور (٣) کسی کا کوئی حق ضائع نہ ہونے دے (منتہی الارب) [٣٥] العزیز بمعنی بالا دست (ضد ذلیل بمعنی زیردست) جیسے دیہات میں ایک طبقہ کمین لوگوں کا ہوتا ہے جو زیردست ہوتا ہے اور دوسرا زمینداروں کا جو بالا دست ہوتا ہے۔ اور العزیز سے مراد وہ بالا دست ہستی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی سر نہ اٹھا سکتا ہو۔ جس کی مزاحمت کرنا کسی کے بس میں نہ ہو۔ جس کے آگے سب بے بس ' بے زور اور کمزور ہوں۔ [٣٦] الجَبَّارُ۔ جبر میں دو باتیں بنیادی طور پر پائی جاتی ہیں۔ (١) زبردستی کرنا (٢) اصلاح۔ یعنی زبردستی اور دباؤ سے کسی چیز کی اصلاح کردینا۔ اور جَبَرَ العَظْم بمعنی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کرنا۔ نیز کبھی یہ لفظ محض زبردستی کرنے کے معنوں میں بھی آجاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ جبار اس لحاظ سے ہے، کائنات کے نظام کو بزور درست رکھنے والا ہے اور اپنے ارادوں کو جو سراسر حکمت پر مبنی ہوتے ہیں پوری قوت سے نافذ کرنے والا ہے۔ [٣٧] المُتَکَبِّرُ کے دو مفہوم ہیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص فی الحقیقت بڑا نہ ہو مگر بڑا بننے کی کوشش کرے۔ خواہ وہ کوئی جن ہو یا انسان اور یہ صفت انتہائی مذموم ہے۔ دوسرا وہ جو فی الحقیقت بڑا ہو اور بڑا ہی ہو کر رہے۔ اور یہ صفت صرف اللہ ہی کے لیے سزاوار ہے۔ اور اس کے حق میں یہ ایک خوبی ہے جو دوسری کسی مخلوق میں نہیں پائی جاتی۔ کائنات کی باقی تمام چیزیں خواہ جاندار ہوں یا بے جان اس کے مقابلہ میں چھوٹی یا حقیر ہیں۔ [٣٨] یعنی جو لوگ اللہ کی ذات یا صفات میں دوسروں کو بھی شریک بنالیتے ہیں وہ اللہ پر بہتان باندھتے ہیں۔ کیونکہ اللہ ایسی تمام باتوں سے پاک ہے۔ اس کے اختیارات و تصرفات میں کسی کو ذرہ بھر بھی دخل نہیں۔