لَوْ أَنزَلْنَا هَٰذَا الْقُرْآنَ عَلَىٰ جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ ۚ وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارتے (١) تو تو دیکھتا کہ خوف الٰہی سے وہ پست ہو کر ٹکڑے ٹکڑے ہو (٢) جاتا ہم ان مثالوں کو لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور و فکر کریں (٣)۔
[٢٦] قرآن کی عظمت اور انسان کی غفلت :۔ یعنی اگر پہاڑوں جیسی عظیم الجثہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ وہ سمجھ، اختیار اور عقل و شعور عطا کردیتا، جو انسان کو عطا کی گئی ہے پھر انہیں یہ بتایا جاتا کہ تمہیں اللہ کا فرمانبردار بن کر رہنا ہوگا اور پھر تمہارے اعمال کی تم سے باز پرس بھی ہوگی تو وہ بھی اس تصور سے کانپ اٹھتے لیکن انسان کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اس بار امانت کو اٹھا لینے کے بعد بھی اس پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ ہی اسے یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ اگر اس نے اپنی زندگی غفلت اور خدا فراموشی میں گزار دی تو آخرت میں اپنے پروردگار کے سامنے کیا جواب دے گا اور اس کی گرفت سے کیسے بچ سکے گا۔ بلکہ وہ قرآن سن کر اور تمام حقائق پر مطلع ہونے کے بعد بھی ایسے غیر متاثر رہتا ہے جیسے کوئی بے جان اور بے شعور پتھر ہو۔ جسے ان بے جان چیزوں کے علاوہ کوئی انسانی قوتیں دی ہی نہیں گئیں۔