سورة الحشر - آیت 14

لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُّحَصَّنَةٍ أَوْ مِن وَرَاءِ جُدُرٍ ۚ بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ ۚ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

یہ سب ملکر بھی تم سے لڑ نہیں سکتے ہاں یہ اور بات ہے کہ قلعہ بند مقامات میں ہوں یا دیواروں کی آڑ میں ہوں (١) ان کی لڑائی تو ان میں آپس میں ہی بہت سخت ہے (٢) گو آپ انہیں متحد سمجھ رہے ہیں لیکن ان کے دل دراصل ایک دوسرے سے جدا ہیں (٣) اس لئے یہ بے عقل لوگ ہیں (٤)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٩] یہود اور منافقین میں جرأت کا فقدان اس آیت کے مخاطب یہود بھی ہیں اور منافقین بھی۔ دونوں ایک جیسے مکار، دغاباز، وعدے کے جھوٹے اور مفاد پرست ہیں۔ ایسے لوگ بزدل ہوتے ہیں کبھی کھلے میدان میں لڑنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ ہاں ایسی جگہ بیٹھ کر لڑ سکتے ہیں جہاں ان کی جان کو کچھ خطرہ نہ ہو۔ مورچوں میں یا قلعہ بند ہو کر تو یہ تیر و تفنگ کا کھیل کھیل سکتے ہیں مگر سامنے آکر دست بدست جنگ کرنا ان کے بس کا روگ نہیں۔ بھلا جسے ہر وقت اپنی جان بچانے کا دھڑکا لگا رہتا ہو تو وہ مقابلہ کیا کرسکتا ہے؟ کیا یہود کیا منافق اور کیا ان کی ذیلی شاخیں۔ ان کے اتحاد کی بنیادمحض اسلام دشمنی ہے :۔ ان سب کے اتحاد کی بنیاد صرف اسلام دشمنی ہے۔ رہے ان کے اندرونی اختلافات اور باہمی عداوتیں تو وہ شدید ہیں۔ لہٰذا ان کا یہ عارضی اور غیر مستقل اتحاد بھی سخت ناپائیدار ہے۔ جو دوران جنگ عین اتحاد کے موقع پر بھی پارہ پارہ ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ جنگ احزاب کے آخر میں قریشیوں اور یہودیوں کا یہ اختلاف ہی ان کی شکست کا ایک اہم سبب بن گیا تھا۔ [٢٠] یعنی انہیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اتحاد بھی صرف وہ کام آتا ہے جس کی جڑیں مضبوط ہوں اور خیالات و نظریات میں ہم آہنگی ہو۔ جب تک وہ اس بات کو نہ سمجھیں گے عارضی طور پر اتحاد کرلینے کے باوجود بھی حق کے مقابلہ میں مار ہی کھاتے رہیں گے۔