سورة الحشر - آیت 11

أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ نَافَقُوا يَقُولُونَ لِإِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَئِنْ أُخْرِجْتُمْ لَنَخْرُجَنَّ مَعَكُمْ وَلَا نُطِيعُ فِيكُمْ أَحَدًا أَبَدًا وَإِن قُوتِلْتُمْ لَنَنصُرَنَّكُمْ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تو نے منافقوں کو نہ دیکھا ؟ کہ اپنے اہل کتاب کافر بھائیوں سے کہتے ہیں اگر تم جلا وطن کئے گئے تو ضرور بالضرور ہم تمہارے ساتھ نکل کھڑے ہونگے اور تمہارے بارے میں ہم کبھی بھی کسی کی بات نہ مانیں گے اور اگر تم سے جنگ کی جائے گی تو بخدا ہم تمہاری مدد کریں گے (١)، لیکن اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ یہ قطعًا جھوٹے ہیں (٢)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥] اس سے مراد عبداللہ بن ابی ّرئیس المنافقین کی طرف سے بنونضیر کے نام وہ پیغام ہے۔ جس نے یہود کو مزید سرکش بنا دیا تھا۔ اور یہی لوگ منافقوں کے حقیقتاً بھائی تھے۔ اور جس کی تفصیل پہلے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٢ کے حواشی میں گزر چکی ہے۔ اس پیغام کا آخری حصہ یہ تھا کہ یہ ہمارا اٹل اور قطعی فیصلہ ہے۔ کہ ہم ضرور تمہاری مدد کو پہنچیں گے۔ تمہارے معاملہ میں ہم اس کے خلاف کسی مسلمان کی بات نہیں مانیں گے نہ اس کی کچھ پروا سمجھیں گے۔ [١٦] یعنی جو پیغام انہوں نے یہودیوں کو بھیجا ہے۔ وہ بھی سرا سر جھوٹ ہے۔ جس سے وہ یہودیوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسا رہے ہیں کہ وہ دلیر ہو کر جنگ لڑیں تو ہمارا کام از خود ہی بن جائے گا اور مسلمانوں سے نجات مل جائے گی۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ یہ منافق نہ لڑائی میں ان کا ساتھ دینے کی نیت رکھتے ہیں اور نہ جلاوطنی میں۔ اور اگر وہ لڑائی میں حصہ لیں بھی تو دم دبا کر بھاگ نکلیں گے۔ کیونکہ مکار اور دغاباز لوگ ہمیشہ بزدل اور بھگوڑے ہوا کرتے ہیں۔