وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
اور (ان کے لئے) جو ان کے بعد آئیں اور کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے اور ایمانداروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال (١) اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والا ہے۔
[١٣] اموال فے میں بعد میں آنے والے مسلمانوں کا حصہ :۔ یعنی اموال فے کے حقداروں میں جن لوگوں کا اللہ نے بطور خاص ذکر فرمایا۔ ان میں پہلے محتاج مہاجرین کا بھی کا ذکر کیا۔ پھر ایثار کرنے والے مہاجرین کا، اور تیسرے نمبر پر بعد میں آنے والوں کا۔ کیونکہ اموال فے میں جائیداد غیرمنقولہ، زمینیں اور ان کے علاوہ وہ جزیہ و خراج کی رقوم بھی شامل ہیں جو سرکاری سطح پر وصول کی جاتی ہیں۔ چنانچہ جب دور فاروقی میں مسلمانوں نے عراق اور شام کو فتح کرلیا اور ان زمینوں پر قبضہ ہوگیا تو امرائے فوج نے اصرار کیا کہ مفتوحات انہیں بطور جاگیر عنایت کئے جائیں اور باشندوں کو ان کی غلامی میں دیا جائے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو وہاں کی مردم شماری کے لیے بھیجا۔ کل باشندوں اور اہل فوج کی تعداد کا موازنہ کیا تو ایک ایک فوجی کے حصے میں تین تین آدمی آتے تھے۔ یہ دیکھ کر سیدنا عمررضی اللہ عنہ کی رائے یہ قائم ہوگئی کہ زمین قومی تحویل میں لے لی جائے اور ان کے مالکوں کو بطور کاشتکار وہیں رہنے دیا جائے اور انہیں غلام نہ بنایا جائے۔ اکابر صحابہ میں سیدنا عبدالرحمن بن عوف اہل فوج کے ہم زبان تھے۔ اموال غنیمت کے علاوہ زمینوں اور قیدیوں کی تقسیم پر بھی مصر تھے اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے تو اس قدر جرح کی کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے زچ ہو کر فرمایا : اللھم اکفنی بلالا (اے اللہ! میری طرف سے بلال کو خود سنبھال) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ استدلال پیش کرتے تھے کہ اگر مفتوحہ علاقے فوج میں تقسیم کردیئے جائیں تو آئندہ افواج کی تیاری، بیرونی حملوں کی مدافعت، ملک میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے مصارف کہاں سے آئیں گے اور یہ مصلحت بھی آپ کے پیش نظر تھی کہ اگر زمین افواج میں تقسیم کردی گئی تو وہ جہاد کی طرف سے غافل اور جاگیرداری میں مشغول ہوجائیں گے۔ لہٰذا اموال غنیمت تو فوج میں تقسیم کردینے چاہئیں۔ اور زمین بیت المال کی ملکیت قرار دی جانی چاہیے کیونکہ اتنی کثیر مقدار میں اموال اور زمین اس کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ لگنے کی توقع کم ہی نظر آرہی تھی۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اگر مجھے پچھلے مسلمانوں کا خیال نہ ہوتا تو میں جو بستی فتح کرتا اسے فتح کرنے والوں میں بانٹ دیتا۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کو بانٹ دیا تھا‘‘ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب الغنیمۃ لمن شھدالوقعۃ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا عراق کی زمینوں کو قومی تحویل میں لینا :۔ جہاں تک اسلامی مملکت کے استحکام اور جملہ مسلمانوں کی خیر خواہی کا تعلق تھا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنی رائے کی اصابت کا مکمل یقین تھا۔ مگر مشکل یہ تھی کہ وہ کوئی ایسی نص قطعی پیش نہ کرسکتے تھے جس سے وہ مجاہدین، سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو قائل کرسکیں۔ چونکہ دلائل دونوں طرف موجود تھے۔ لہٰذا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کے لیے دس افراد پر مشتمل مجلس مشاورت طلب کی۔ اس مجلس میں پانچ قدماء مہاجرین اور پانچ انصار (اوس و خزرج) شریک ہوئے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اتفاق کیا۔ کئی دن بحث چلتی رہی مگر کچھ فیصلہ نہ ہوسکا۔ سیدنا عمر اس سلسلہ میں خاصے پریشان رہتے تھے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو یہی الفاظ ﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤُوْا مِنْ بَعْدِھِمْ﴾ سجھا دیئے جو اس بحث کو طے کرنے کے لیے نص قطعی کا درجہ رکھتے تھے اور یہ ایسی دلیل تھی جس کے سامنے سب کو سر تسلیم خم کرنا پڑا۔ سیدنا عمر نے ایک اجتماع عام بلا کر اس میں اسی جملہ کے حوالہ سے پرزور تقریر فرمائی جس پر سب لوگوں نے یک زبان ہو کر اعتراف کیا کہ آپ کی رائے درست ہے۔ یہاں یہ مسئلہ بھی سامنے آتا ہے کہ یہ الفاظ تو مدتوں پہلے نازل ہوچکے تھے۔ جنہیں سیدنا عمر سمیت سب صحابہ سینکڑوں مرتبہ پڑھ چکے تھے۔ لیکن ان کے اطلاق (Implication) کا معاملہ ابھی تک سامنے آیا ہی نہ تھا۔ اور جب معاملہ سامنے آگیا تو اللہ تعالیٰ نے آیات الٰہی میں غور کرنے پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو ان الفاظ کا مفہوم اور اس کی وسعت بھی سجھا دی۔ قرآن کا یہی وہ اعجاز ہے جس کے متعلق رسول اللہ نے فرمایا تھا کہ اس کتاب کے عجائب لامتناہی ہیں جو کبھی ختم نہیں ہوسکتے۔ اس واقعہ سے ضمناً درج ذیل امور پر بھی روشنی پڑتی ہے :۔ نزاع کے وقت امیر کے اختیارات کی تعیین :۔ ١۔ امیر فیصلہ کرتے وقت کثرت رائے کا پابند نہیں ہوتا۔ فیصلہ کی اصل بنیاد اس کا اپنا دلی اطمینان یا انشراح صدر ہے۔ کیونکہ اس معاملہ میں اکثریت کی رائے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی رائے کے خلاف تھی۔ ٢۔ امیر اپنی مرضی یا رائے عوام پر ٹھونسنے کا حق نہیں رکھتا۔ بلکہ انہیں شرعی دلیل سے قائل کرنا اور انہیں اپنے اعتماد میں لینا ضروری ہوتا ہے۔ بالفاظ دیگر اسلام کا نظام حکومت استبدادی نہیں بلکہ شورائی ہے اور مشورہ میں مقصود دلیل کی تلاش ہے۔ خواہ وہ ایک آدمی سے مل جائے۔ یہاں کثرت رائے فیصلہ کی بنیاد نہیں ہوتی۔ ٣۔ آخری فیصلہ کا اختیار میر مجلس کو ہوتا ہے۔ [١٤] صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے دشمنی رکھنے والوں کو تنبیہ :۔ اس آیت سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے خواہ وہ مہاجرین ہوں یا انصار۔ بغض عداوت، کینہ یا بیر رکھے اسے سب سے پہلے اپنے ایمان کی سلامتی کی دعا کرنا چاہئے۔ پھر یہ دعا کرنا چاہئے کہ یا اللہ ہمارا یہ گناہ معاف فرما دے اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما جو ایمان لانے میں ہم سے سبقت لے چکے ہیں اور اگر ہمارے دلوں میں ان کے متعلق کچھ کینہ رہ گیا ہے تو اسے بھی نکال دے۔ سچا مسلمان وہی ہوسکتا ہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس پاکباز جماعت سے محبت رکھے اور انہیں اپنا قائدتسلیم کرے اور امام مالک رحمہ اللہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ جو شخص صحابہ سے بغض رکھے اور ان کی بدگوئی کرے، مال فے میں اس کے لیے کچھ حصہ نہیں۔