وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا
تم میں سے جو دو افراد ایسا کام کرلیں (١) انہیں ایذا دو (٢) اگر وہ توبہ اور اصلاح کرلیں تو ان سے منہ پھیر لو بیشک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے۔
[٢٨] اس آیت میں (والذان) کا لفظ استعمال ہوا ہے یعنی خواہ یہ زنا کرنے والے مرد اور عورت ہوں یا دونوں مرد ہوں اور لواطت کے مرتکب ہوں۔ اس لفظ میں دونوں صورتوں کی گنجائش ہے تو ایسے مردوں یا ایسے مرد اور عورت کی ابتدائی سزا یہ تھی کہ انہیں مار پیٹ کی جائے اور برا بھلا کہا جائے اور ذلیل کیا جائے۔ گویا زانی مرد اور عورت دونوں کے لیے تو یہ سزا تھی اور عورت کے لیے یہ سزا اضافی تھی کہ اسے تازیست گھر میں بند رکھا جائے۔ اور جس دوسری سزا کے تجویز کرنے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا تھا اس سلسلے میں درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سزائے رجم :۔ سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک روز آپ پر وحی نازل ہوئی اور جب وحی کی کیفیت ختم ہوئی تو آپ نے فرمایا : مجھ سے (اللہ کا حکم) سیکھ لو۔ اللہ نے ایسی عورتوں کے لیے سزا تجویز کردی۔ شادی شدہ مرد اور شادی شدہ عورت اگر زنا کریں تو انہیں سو کوڑے مارے جائیں۔ پھر رجم کیا جائے اور اگر کنوارہ مرد اور کنواری عورت زنا کریں تو ان کے لیے سو کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی ہے۔ (مسلم، کتاب الحدود۔ باب حد الزنا) پھر اس حکم کے بعد زانی مرد اور عورت کے لیے سورۃ نور میں سزا تجویز فرمائی۔ یہ بحث تفصیل سے سورۃ نور میں ہی آئے گی۔ مندرجہ بالا آیات میں بعض لوگوں نے والٰتی سے مراد مرد اور عورت نہیں بلکہ دونوں عورتیں ہی لی ہیں، جو آپس میں چپٹی بازی کر کے (جسے عربی میں سحق کہتے ہیں) کام چلا لیتی ہیں۔ ایسی دونوں عورتوں کے لیے سزا حبس دوام ہے۔ یعنی گھر میں ہی ایسی عورتوں کی کڑی نگہداشت رکھی جائے۔ اور یہ حد نہیں بلکہ تعزیر ہے لیکن یہ مراد کچھ درست معلوم نہیں ہوتی۔ کیونکہ بعد میں اللہ تعالیٰ نے جو سزا تجویز فرمائی وہ مرد اور عورت کے لیے سزا تھی۔ خواہ وہ کنوارے ہوں یا شادی شدہ، ہر ایک کے لیے علیحدہ سزا مقرر ہوئی، جیسا کہ مندرجہ بالا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث سے واضح ہے جسے مسلم نے روایت کیا ہے۔ البتہ یہ ممکن ہے کہ اگر عورتیں ہی آپس میں چپٹی بازی کریں تو انہیں ان کے ولی ایسی سزا دے سکتے ہیں۔ اسی طرح والَّذَانِ سے مراد اغلام یا لواطت لی گئی ہے یعنی ایسی بدفعلی جو دو مرد آپس میں کرتے ہیں۔ اور ان پر بھی حد نہیں بلکہ تعزیر ہے اور وہ تعزیر یہ ہے کہ انہیں جوتے مارے جائیں۔ لواطت کی حد کے بارے میں ترمذی، ابو اب الحدود میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت مرفوعاً مروی ہے کہ فاعل اور مفعول دونوں کو قتل کردیا جائے لیکن یہ حدیث ضعیف ہے۔ پھر ائمہ ایسے جوڑے کے رجم کے قائل ہیں۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان کی سزا زانی جیسی ہے۔ اگر شادی شدہ ہے تو رجم ورنہ کوڑے پڑیں گے۔ زنا ہو یا اغلام یا چپٹی بازی ہو یا محض تہمت ہو۔ ان سب میں چار مردوں کی شہادت ضروری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک دعویٰ میں دو دو افراد ملوث ہوتے ہیں خواہ ایک مرد اور ایک عورت ہو یا دونوں عورتیں ہوں یا دونوں مرد ہوں۔ [٢٩] یعنی اگر وہ مار پیٹ کے دوران یا اس کے بعد اپنے کیے پر فی الواقع نادم ہوں اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیں تو ایسے لوگوں پر مزید ملامت کرنا درست نہیں۔