فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا ۩
اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور (اسی کی) عبادت کرو (١)
[٤٣] مسلمانوں کے ساتھ کافروں کا بھی سجدہ ریز ہونا :۔ یہ سورت ابتدائی مکی سورتوں سے ہے اور یہ پہلی سورت ہے جس میں آیت سجدہ نازل ہوئی نیز یہی وہ پہلی سورت ہے جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجمع عام میں اور بعض روایات کے مطابق حرم میں کافروں اور مسلمانوں کے مشترکہ مجمع میں سنایا۔ قرآن کی اثر آفرینی کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ﴿ فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا﴾پڑھا تو مسلمانوں کے ساتھ کافر بھی بے اختیار سجدہ ریز ہوگئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سب سے پہلے جو سجدہ والی سورت نازل ہوئی وہ سورۃ النجم تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سورۃ میں سجدہ کیا اور آپ کے پیچھے جتنے لوگ بیٹھے تھے (خواہ مسلمان تھے یا مشرک) سب نے سجدہ کیا بجز ایک شخص امیہ بن خلف کے، اس نے مٹھی بھر مٹی لی (منہ سے قریب کی) پھر اس پر سجدہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ اس کے بعد یہ شخص کفر کی حالت میں (بدر کے دن) مارا گیا۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اسی موقعہ سے متعلق مشہور ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں ﴿ اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی وَمَنٰوۃَ الثَّالِثَۃَ الْاُخْرٰی﴾ تو شیطان نے آپ کی آواز جیسی آواز میں آگے یہ الفاظ پڑھ دئیے۔ ﴿تِلْکَ الغَرَانِیْقُ العُلٰی وَإنَّ شَفَاعَتُھُنَّ لَتُرْجٰی﴾ (یہ تینوں بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت متوقع ہے) اور بعض کے نزدیک یہ واقعہ یوں ہوا کہ جب قریشیوں نے بھی مسلمان کے ساتھ مل کر سجدہ کرلیا تو بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہم سے یہ کیا حماقت سرزد ہوگئی تب انہوں نے یہ الفاظ اپنی طرف سے گھڑے اور کہہ دیا کہ ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے اور سمجھے کہ اب وہ بھی ہمارے دین کی طرف مائل ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہم نے ان کے ساتھ مل کر سجدہ کیا تھا۔ یہ واقعہ جو کچھ بھی تھا، یہ خبر یا افواہ اتنی مشہور ہوئی کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں نے، جنہوں نے رجب ٥ نبوی میں ہجرت کی تھی۔ جب ایسی صلح یا سمجھوتے کی خبر سنی تو شوال ٥ نبوی میں مکہ واپس آگئے۔ مگر مکہ آکر انہیں معلوم ہوا کہ یہ تو سب کچھ ایک افسانہ تھا۔ چنانچہ وہ دوبارہ ہجرت کرکے حبشہ کی طرف واپس چلے گئے۔