سورة الذاريات - آیت 1

وَالذَّارِيَاتِ ذَرْوًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

قسم ہے بکھیرنے والیوں کی اڑا کر (١)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] بارش سے تعلق رکھنے والی ہوائیں اور ان کی قسم :۔ ان ابتدائی چار آیات میں مختلف قسم کی ہواؤں کا ذکر ہے جو بارش کے نظام پر دلالت کرتی ہیں۔ پہلے کچھ گردو غبار اڑنا شروع ہوجاتا ہے۔ پھر آسمان کے کسی کونے سے لاکھوں اور کروڑوں ٹن پانی کا بوجھ اٹھانے والی گھٹائیں نمودار ہوجاتی ہیں۔ پھر ٹھنڈی اور نرم ہوائیں چلتی ہیں جو بارش کی خوشخبری لاتی اور دلوں کو راحت و سرور بخشتی ہیں۔ پھر یہی ہوائیں بادلوں کو ان علاقوں کی طرف لے جاتی ہیں جہاں جہاں اللہ تعالیٰ کو بارش برسانا منظور ہوتا ہے اور جس قدر بارش برسانا منظور ہوتا ہے بعض مفسرین نے ﴿فَالْجٰرِیٰتِ یُسْرًا ﴾ سے مراد کشتیاں لی ہیں جو دھیرے دھیرے چلتی ہیں اور بعض نے سیارے جو سبک رفتاری سے محو گردش رہتے ہیں۔ اسی طرح ﴿ فَالْمُقَسِّمٰتِ اَمْرًا ﴾سے بعض مفسرین نے وہ فرشتے مراد لیے ہیں جو رزق کی تقسیم پر مامور ہیں۔ ان کے نزدیک جن چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے ان کی ترتیب نیچے سے اوپر کو ہے۔ یعنی گردوغبار اڑانے والی ہوائیں تو سطح زمین پر چلتی ہیں۔ بادل اٹھانے والی ہوائیں سطح زمین سے کافی بلندی پر ہوتی ہیں۔ ستارے زمین سے بہت دور اور بلندی پر ہیں۔ اور فرشتے ان سے بھی زیادہ بلندی پر ہیں۔ ان دونوں تفسیروں میں اکثر مفسرین نے پہلی تفسیر کو ہی ترجیح دی ہے۔