وَلَوْ أَنَّهُمْ صَبَرُوا حَتَّىٰ تَخْرُجَ إِلَيْهِمْ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ ۚ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اگر یہ لوگ یہاں تک صبر کرتے کہ آپ خود سے نکل کر ان کے پاس آجاتے تو یہی ان کے لئے بہتر ہوتا (١) اور اللہ غفور و رحیم ہے۔ (٢)
[٥] گھر سے بلانے میں ادب کے تقاضے ' نبی سے انداز گفتگو شائستہ ہونا چاہئے :۔ بنو تمیم کے کچھ لوگ عین دوپہر کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے۔ اور زور سے چلانے لگے : ’’یامحمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) !) باہر ہمارے پاس آئیے۔ ہماری بڑی اچھی شہرت ہے اور ہماری بڑائی بڑی ہے۔‘‘ ان کے پکارنے کے انداز سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ بدو ' غیر مہذب اور اجڈ قسم کے جنگلی لوگ تھے۔ جنہیں نہ گھر سے بلانے کا سیلقہ آتا تھا اور نہ گفتگو کرنے کا وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنے آپ کو ہی بہت کچھ سمجھتے تھے۔ غالباً یہ لوگ مسلمان ہوچکے تھے اور اپنے قبیلے کے لئے ایک سردار کی تقرری کی درخواست لے کر آئے تھے۔ جیسا کہ اسی سورۃ کے حاشیہ نمبر ٢ میں درج شدہ حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ پھر یہ بات صرف انہی لوگوں پر ہی موقوف نہ تھی۔ اکثر بدو لوگ اسی بھونڈے انداز میں آپ کو گھر سے بلاتے اور گفتگو کرتے تھے اور آپ اپنی طبعی شرم و حیا کی وجہ سے انہیں کچھ نہیں کہتے تھے۔ ایسے ناشائستہ، ان گھڑ اور بے وقوف قسم کے انسانوں کو اس آیت کے ذریعہ تنبیہ کی گئی ہے کہ جب وہ رسول سے مخاطب ہوں تو اس بات کو ملحوظ رکھیں کہ جس سے وہ بات کرنا چاہتے ہیں وہ ایک عام آدمی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا رسول اور اس کا نمائندہ ہے۔ جس کی شان دنیا کے افسروں اور بادشاہوں سے بہت ارفع و اعلیٰ ہے اور یہ عین ممکن ہے کہ اگر تم اس کی شان میں بے ادبی یا گستاخی کرو تو تمہیں اپنے ایمان ہی کی خیر منانی پڑے۔ لہٰذا تم لوگوں کے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گھر سے بلانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ حجرہ کے باہر کھڑے ہو کر اندر اطلاع بھجواؤ یا مہذب طریقے سے آواز دو۔ پھر کچھ انتظار کرو۔ ممکن ہے کہ وہ کسی دوسرے کام میں مصروف ہوں۔ پھر جب وہ باہر آئیں تو جو کہنا ہو مہذب طریقہ سے بات کرو۔ [٦] یعنی اگر تم آئندہ ان آداب کو ملحوظ رکھو گے تو اللہ تمہاری سابقہ خطائیں معاف فرما دے گا۔