مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں آپس میں رحمدل ہیں، تو انہیں دیکھے گا رکوع اور سجدے کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رضامندی کی جستجو میں ہیں، ان کا نشان ان کے چہروں پر سجدوں کے اثر سے ہے، ان کی یہی مثال تورات میں ہے اور ان کی مثال انجیل میں ہے (١) مثل اس کھیتی کے جس نے انکھوا نکالا (٢) پھر اسے مضبوط کیا اور وہ موٹا ہوگیا پھر اپنے تنے پر سید ھا کھڑا ہوگیا اور کسانوں کو خوش کرنے لگا (٣) تاکہ ان کی وجہ سے کافروں کو چڑائے (٤)، ان ایمان والوں سے اللہ نے بخشش کا اور بہت بڑے ثواب کا وعدہ کیا ہے (٥)
[٤٥] تحریر صلح پر اعتراضات :۔ جب صلح نامہ حدیبیہ لکھا جارہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں لکھوانا شروع کیا : ’’محمد اللہ کے رسول کی جانب سے‘‘ تو اس پر کفار کے سفیر سہیل بن عمرو نے یہ اعتراض جڑ دیا کہ یہی بات تو سارے تنازعہ کی بنیاد ہے۔ ہم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تسلیم کرلیں تو باقی جھگڑا ہی کیا رہ جاتا ہے؟ اس کے بجائے، محمد بن عبداللہ لکھو۔ اور آپ چونکہ ہر صورت صلح کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے آپ نے محمد رسول اللہ کے بجائے محمد بن عبداللہ لکھنے کو کہا۔ اس آیت میں ان کافروں سے یہ کہا جارہا ہے کہ اللہ ہی نے آپ کو رسول بنا کر اور ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے۔ اگر تم تسلیم نہیں کرتے تو نہ کرو۔ کسی وقت تمہیں یہ تسلیم کرنا پڑے گا۔ کیونکہ اس رسول کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسے تمام ادیان پر غالب کردے۔ اور یہ کام ہو کر رہے گا۔ لہٰذا اس کے اللہ کا رسول ہونے پر اللہ کی گواہی ہی کافی ہے۔ [٤٦] صحابہ کے خصائل' کافروں کے سامنے شان وشوکت کا مظاہرہ درست ہے :۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان کافروں سے تند مزاجی اور سخت کلامی سے پیش آتے ہیں۔ یا انہیں پیش آنا چاہئے۔ بلکہ یہ ہے کہ وہ کافروں سے کسی صورت دب کر نہیں رہتے، اصول دین کے معاملہ میں نہ وہ ان سے سمجھوتہ کرسکتے ہیں، نہ بک سکتے ہیں، نہ نرم رویہ اختیار کرتے ہیں نہ ان کی دھمکیوں اور سازشوں سے مرعوب ہوتے ہیں بلکہ اس کے بجائے خود انہیں مرعوب رکھتے ہیں اور دور نبوی میں ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ جنگ احد میں ابو دجانہ کا کردار :۔ جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے پوچھا : آج میری تلوار کا حق کون ادا کرے گا ؟ سیدنا ابو دجانہ جو پہلوان تھے آگے بڑھ کر کہنے لگے : ’’میں کروں گا‘‘ چنانچہ آپ نے انہیں اپنی تلوار دے دی۔ انہوں نے ایک سرخ پٹی اپنے سر پر باندھ رکھی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عطا کردہ تلوار لے کر بڑی شان اور فخر کے ساتھ کافروں کی طرف بڑھے اور بہت سے کافروں کو موت کے گھاٹ اتارتے جارہے تھے۔ انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’اللہ کو یہ چال ہرگز پسند نہیں، مگر آج ابو دجانہ کی یہ چال اللہ کو بہت پسند ہے‘‘ جب آپ خود چودہ سو صحابہ کے ہمراہ عمرہ قضا کے لئے آئے۔ تو صحابہ کو طواف میں رمل کا حکم دیا۔ کیونکہ کافروں میں یہ بات مشہور ہوچکی تھی کہ مدینہ کی آب و ہوا نے مسلمانوں کو کمزور بنا دیا ہے۔ اس لئے آپ نے طواف میں نوجوانوں کی طرح اکڑ کر آدھی دوڑ کی چال یعنی رمل کا حکم دیا۔ نیز آپ نے فتح مکہ کے موقعہ پر اپنی فوجی قوت اور شان و شوکت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔ جس سے کفار مکہ اس قدر مرعوب ہوئے کہ مقابلہ کی ہمت ہی نہ کرسکے۔ [٤٧] صحابہ کی دوسری صفت :۔ صحابہ کرام کی اللہ تعالیٰ نے دوسری صفت یہ بیان فرمائی کہ وہ آپس میں رحم دل اور نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ ان کی آپس میں ہمدردی اور غمگساری، تواضع اور خاطر و مدارت سے یوں معلوم ہوتا ہے جیسے وہ آپس میں حقیقی بھائی ہیں۔ بھلا جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی مہربانی سے آپس میں بھائی بنادیا ہو ان کی اخوت اور ایثار و مروت میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ وہی قتل و غارت اور لوٹ مار کے رسیا لوگ جب اسلام لائے تو اسلام نے ان کی ایسی اخلاقی تربیت کی کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں جہاں گرم ہونے کی ضرورت ہوتی فوراً گرم ہوجاتے اور جہاں نرم ہونے کی ضرورت ہوتی نرم پڑجاتے تھے۔ ان کی باہمی محبت اور ایثار کے واقعات اتنے زیادہ ہیں کہ یہاں یہ بحث چھیڑنا ممکن نہیں۔ [٤٨] تیسری صفت شب بیداری اور عبادت گزاری :۔ اس سے مراد یہ گٹہ کا نشان نہیں جو بعض نمازیوں کی پیشانیوں پر پڑجاتا ہے۔ بلکہ یہ ہے کہ ان کے چہرے کو دیکھ کر ایک عام انسان بھی یہ سمجھ جاتا ہے کہ کس قدر اللہ سے ڈرنے والے کریم النفس اور راست باز انسان ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو عبداللہ بن سلام نے جو اس وقت یہود کے بہت بڑے عالم تھے، آپ کا چہرہ دیکھ کر یہ کہہ دیا تھا کہ ’’ایسا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا۔‘‘ غرضیکہ چہرہ دراصل انسان کا آئینہ ہوتا ہے اور تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ اکثر عقل مند اور جہاں دیدہ لوگ کسی کا چہرہ دیکھ کر ہی یہ اندازہ لگا لیتے ہیں کہ فلاں آدمی کس قبیل کا آدمی ہوسکتا ہے۔ صحابہ کے چہروں کو دیکھ کر ہی یہ معلوم ہوجاتا تھا کہ یہ لوگ شب بیدار، عبادت گزار اور اللہ سے ڈرنے والے لوگ ہیں اور تورات اور انجیل میں رسول اللہ اور آپ کے ساتھیوں کی جو صفات مذکور ہیں، وہ بھی ایسی ہی ہیں۔ [٤٩] چوتھی صفت ناگوار حالات میں اسلام کے پودے کو پروان چڑھانے والی جماعت :۔ یعنی مسلمان پہلے صرف ایک تھا اور وہ تھی رسول اللہ کی ذات اقدس جو اپنی نبوت پر سب سے پہلے خود ایمان لائے۔ پھر ایک سے دو ہوئے، دو سے تین، تین سے سات۔ اسی طرح رفتہ رفتہ اسلام کا پودا زمین سے باہر نکل آیا۔ باہر نکل آنے کے بعد اس پر باد مخالف کی ہوائیں چلنا شروع ہوگئیں۔ جو آہستہ آہستہ مظالم کی تیز آندھیوں میں تبدیل ہوگئیں۔ مگر یہ پودا مخالف ہواؤں کے باوجود اپنی جگہ پر بر قرار رہا۔ پھلتا پھولتا اور بڑھتا رہا۔ مخالف ہوائیں جتنی تند و تیز ہوتیں اتنا ہی یہ پودا مضبوط جڑیں پکڑتا اور بلند ہوتا گیا حتیٰ کہ فتح مکہ کے دن یہ پودا ایک مضبوط اور تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا۔ جوں جوں یہ پودا بڑھ رہا تھا۔ مخالف قوتیں اسے دیکھ کر جل بھن جاتی تھیں۔ مگر اس پودے کو لگانے والے، اس کی آبیاری اور نگہداشت کرنے والے اسے دیکھ کر اتنا ہی خوش ہوجاتے تھے اور پھولے نہ سماتے تھے اور جب یہ مضبوط درخت بن کر اپنی جڑوں پر استوار ہوگیا۔ اس وقت مخالف طاقتوں کو پوری طرح معلوم ہوگیا کہ اب وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتیں۔ بلکہ اس کے سایہ تلے پناہ لینے کے بغیر اور کوئی چارہ باقی نہیں رہ گیا۔ اس درخت کی آبیاری اور نگہداشت کرنے والی صحابہ کرام کی وہ مقدس جماعت تھی جو نبی اخر الزمان پر ایمان لائے تھے پھر عمر بھر دل و جان سے اس کی اطاعت کرتے اور اس کے اشاروں پر چلتے رہے۔ ایسے لوگوں کا اللہ کے ہاں اجر بھی بہت زیادہ ہے جو ان کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں کو معاف کرکے انہیں جنت کے بلند درجات عطا فرمائے گا۔ اس آیت سے بعض علماء نے یہ استنباط کیا ہے کہ صحابہ کرام (رض) سے جلنے والا اور ان کے متعلق بغض اور کینہ رکھنے والا شخص کبھی مسلمان نہیں ہوسکتا۔