سورة الفتح - آیت 16

قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتُدْعَوْنَ إِلَىٰ قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ ۖ فَإِن تُطِيعُوا يُؤْتِكُمُ اللَّهُ أَجْرًا حَسَنًا ۖ وَإِن تَتَوَلَّوْا كَمَا تَوَلَّيْتُم مِّن قَبْلُ يُعَذِّبْكُمْ عَذَابًا أَلِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

آپ پیچھے چھوڑے ہوئے بدویوں سے کہہ دو کہ عنقریب تم ایک سخت جنگجو قوم کی طرف بلائے جاؤ گے کہ تم ان سے لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے (١) پس اگر تم اطاعت کرو (٢) گے تو اللہ تمہیں بہت بہتر بدلہ دے گا (٣) اور اگر تم نے منہ پھیر لیا جیسا کہ اس سے پہلے تم منہ پھیر چکے ہو وہ تمہیں دردناک عذاب دے گا (٤)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢١] جنگجو قوم کونسی تھی؟ ثقیف 'ہوازن اور بنو حنیفہ :۔ ﴿یُسْلِمُوْنَ﴾ کے دو مطلب ہیں ایک وہ جو ترجمہ سے واضح ہو رہا ہے کہ وہ جنگ کرنے کے بغیر ہی آپ کی اطاعت قبول کرلیں گے اور جزیہ ادا کریں گے نیز اسلام کی راہ میں مزاحمت کرنا چھوڑ دیں گے اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ گویا حسد کا طعنہ دینے والے منافقوں کو سمجھایا یہ جارہا ہے کہ جب تک تم اپنے اموال اور اپنی جانوں کی قربانی سے یہ ثابت نہ کر دو کہ تم اسلام اور مسلمانوں کے حق میں مخلص ہو تو اموال غنیمت میں حصہ دار کیسے بن سکتے ہو؟ اب اس کی یہ صورت ہوسکتی ہے کہ آئندہ بھی کئی مواقع پر جنگجو قوموں سے سابقہ پڑنے والا ہے۔ اس وقت تمہیں جہاد میں باقاعدہ شمولیت کی دعوت دی جائے گی اور تمہارے ایمان کی آزمائش کی جائے گی۔ یہ الگ بات ہے کہ ان سے جنگ کرنا پڑتی ہے یا وہ لڑے بھڑے بغیر ہی مطیع فرمان بن جاتے ہیں۔ بہرحال تمہارے روانہ ہونے سے ہی تمہارا امتحان ہوجائے گا۔ پھر اگر تو تم اپنے دعوے میں سچے اور اپنے ایمان میں مخلص ہوئے تو تم ایسی جنگجو قوم سے لڑنے اور سردھڑ کی بازی لگانے پر تیار ہوجاؤ گے تو تمہیں اموال غنیمت میں سے بھی حصہ ملے گا اور اللہ سے بھی بڑا اچھا بدلہ ملے گا۔ لیکن اگر تم نے پھر وہی کام کیا جو غزوہ حدیبیہ کے موقع پر کیا تھا اور حیلے بہانے تراشنے لگے تو پھر تمہاری اور بھی زیادہ ذلت اور رسوائی ہوگی اور آخرت میں بھی دردناک سزا ملے گی۔ واضح رہے کہ اس آیت میں جنگجو قوم سے مراد جنگ حنین میں حصہ لینے والے قبیلے ثقیف اور ہوازن بھی ہوسکتے ہیں اور مسیلمہ کذاب کی جنگ یمامہ میں حصہ لینے والے بنو حنیفہ بھی۔ علاوہ ازیں خلافت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ و عمررضی اللہ عنہ کے دور میں بھی کئی معرکے پیش آتے رہے۔ صلح حدییبہ میں مسلمانوں کی مرضی کے علی الرغم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بظاہر توہین آمیز شرائط پر صلح کے لئے اصرار فرمایا تھا تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تھے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا تھا کہ جنگ کا خطرہ سر پر سوار نہ ہو اور جب بھی جنگ کا موقعہ آتا تو قریش، یہود، منافقین اور مشرک قبائل سب مسلمانوں کے خلاف اتحاد قائم کرلیتے تھے۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ کم از کم قریش مکہ سے صلح کرکے دوسرے دشمنوں کی سرکوبی کی جائے۔ جنگ احزاب میں بنونضیر کا سردار حیی بن اخطب بھی قتل کردیا گیا۔ جو خیبر کے یہود کا سردار تھا تو یہودی اور بھی سیخ پا ہوگئے تھے اور مدینہ پر پرزور حملہ کرکے ان کا استیصال کرنے کے لئے تیاریاں کر رہے تھے۔ اور یہ خبریں دم بدم مدینہ بھی پہنچ رہی تھیں۔ صلح حدیبیہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان پر لشکر کشی کا ارادہ کرلیا۔ اس لشکر کا بیشتر حصہ وہی مسلمان تھے جنہوں نے صلح حدیبیہ یا بیعت رضوان میں حصہ لیا تھا۔ خیبر پر حملہ کا آغاز :۔ خیبر میں یہودیوں کے نو مشہور قلعے تھے جن میں بیس ہزار آزمودہ کار سپاہی موجود تھے۔ اسلامی لشکر رات کے وقت خیبر کے پہلے قلعہ ناعم پر پہنچ گیا۔ اس وقت قلعہ والے اسلامی لشکر کی یورش سے بالکل بے خبر محو خواب تھے۔ شب خون مار کر قلعہ کو فتح کرنے کا یہ بہترین موقعہ تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم شب خون مارنے کے خلاف تھے۔ اور مسلمانوں کو بھی شب خون مارنے کی ممانعت کردی تھی۔ لہٰذا آپ نے لشکر کو صبح ہونے تک توقف کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ جب کسی قوم پر جہاد کرتے تو ان پر صبح تک حملہ نہ کرتے، صبح اگر ان لوگوں میں اذان کی آواز سنتے تو حملہ نہ کرتے اور اگر آذان کی آواز نہ آتی تب حملہ کرتے تھے۔جب صبح ہوئی تو یہودی پھاوڑے ٹوکریاں لے کر نکلے۔ کیونکہ وہ زراعت پیشہ تھے۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو چیخ اٹھے اور کہنے لگے : اللہ کی قسم! یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو لشکر سمیت آن پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھ کر نعرہ لگایا۔ اللہ اکبر خربت خیبر (اللہ اکبر! خیبر کی شامت آگئی) پھر فرمایا : ہم جب بھی کسی قوم کے آنگن میں اترے تو جن لوگوں کو ڈرایا گیا ان کی صبح منحوس ہی ہوتی ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب دعاء النبی الی الاسلام والنبوۃ۔۔) چنانچہ یہ یہودی خوف زدہ ہو کر شہر کی طرف بھاگے اور قلعہ ناعم میں جا پناہ لی۔ ناعم میں یہود کا صرف سامان رسد وغیرہ تھا کوئی بڑی فوجی قوت نہ تھی۔ لہٰذا مسلمانوں نے اسے آسانی سے فتح کرلیا۔ اس کے بعد دوسرے چھوٹے قلعے بھی آسانی کے ساتھ تسخیر ہوگئے۔ لیکن سب سے مضبوط اور سب سے اہم سلام بن ابی الحقیق کا قلعہ قموص تھا جس میں یہود کا سردار اور مشہور جری پہلوان مرحب بھی موجود تھا۔ قموص پر ہر روز حملے ہوتے رہے لیکن یہ سر ہونے میں نہ آتا تھا۔ اسی طرح بیس دن گزر گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کل میں جھنڈا ایسے شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ خیبر فتح کرا دے گا۔ اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت رکھتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت رکھتا ہے۔ آپ کا سیدناعلی کو جھنڈا عطا کرنا :۔ لوگ رات بھر اسی سوچ میں رہے کہ دیکھئے کل کس کو جھنڈا ملتا ہے۔ صبح سب لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ نے پوچھا علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تو آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا : کسی کو اسے بلانے کے لئے بھیج دو۔ جب سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا تھوک ان کی آنکھوں پر لگایا اور دعا فرمائی۔ وہ ایسے اچھے ہوگئے جیسے انہیں کچھ تکلیف ہی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھنڈا ان کے حوالے کیا۔ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں ان سے اس وقت تک لڑتا رہوں جب تک وہ ہماری طرح (مسلمان) نہ ہوجائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آرام سے جاؤ جب ان کے مقام پر پہنچ جاؤ تو انہیں اسلام کی دعوت دو اور ان پر اللہ کا جو فرض ہے وہ انہیں بتاؤ۔ اللہ کی قسم اگر تیرے ذریعہ اللہ ایک شخص کو بھی ہدایت دے دے تو وہ تیرے حق میں سرخ اونٹوں سے بہتر ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب مناقب علی ابن ابی طالب) اور ایک روایت میں ہے کہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے کبھی کسی منصب یا عہدے کی آرزو پیدا نہیں ہوئی۔ لیکن اس رات میرے دل میں بھی یہ خواہش مچل رہی تھی کہ کاش صبح میرا نام پکارا جائے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل علی ابن ابی طالب) سیدنا علی اور مرحب کا مقابلہ :۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فوج لے کر قلعہ پر حملہ آور ہوئے تو آپ کے مقابلہ کے لئے یہودی سالار مرحب مقابلہ کو نکلا اور میدان میں اتر کر تین مصرعوں کا شعر پڑھا : قد علمتْ خیبر انی مرحَب۔۔ شَاک السَّلاحِ بَطَلٌ مجرَّبٌ۔۔ اِذَا الحُروبُ اَقْبَلَتْ تَلَھَّبُ ’’سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں۔ ہتھیار بند ہوں اور اس وقت آزمودہ کار پہلوان ثابت ہوتا ہوں۔ جب لڑائیاں شعلے اڑانے لگتی ہیں‘‘ اس کے جواب میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی تین مصرعے کا شعر پڑھا : انا الذی سمَّتُنِی اُمّی حیدرَہ،۔۔ کَلَیْثِ غاباتٍ کریہ المَنْظَرَہ۔۔ اُو فیھِم بالصَّاع کیل السُّنْدَرَہ، ’’میں وہ ہوں جس کا میری ماں نے شیر نام رکھا تھا۔ میں جنگلوں کے شیر کی طرح جس کو دیکھوں سب ڈر جاتے ہیں۔ اور میں اینٹ کا جواب پتھر سے دیا کرتا ہوں‘‘ پھر سیدنا علی نے مرحب کے سر پر ایک ایسی کاری ضرب لگائی جس سے اس کا کام تمام ہوگیا اور اللہ تعالیٰ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر فتح دی۔ (مسلم۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب غزوۃ ذی قرد وخیبر) مرحب کے بعد اس کا بھائی یاسر میدان میں اترا تو سیدنا زبیر نے اسے ڈھیر کردیا۔ اس پر یہودیوں کی ہمت ٹوٹ گئی اور قلعہ فتح ہوگیا۔ اس معرکہ خیبر میں ترانوے یہودی کام آئے اور بیس مجاہدین شہید ہوئے۔ یہودیوں کی جان بخشی کی شرائط :۔ اس شکست فاش کے بعد یہودیوں نے آپ سے جان بخشی کی درخواست کی جسے آپ نے اس شرط پر منظور کیا کہ یہود اپنی تمام جائیداد منقولہ اور غیر منقولہ یعنی ہتھیار، نقدی اور مویشی نیز زمین اور باغات وغیرہ سب کچھ مسلمانوں کے حوالہ کردیں گے اور اگر انہوں نے جائیداد کا اتا پتا بتانے میں پس و پیش کیا تو یہ معاہدہ ختم اور مسلمانوں کو انہیں قتل کردینے یا جلا وطن کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ اس معاہدہ کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود بنونضیر سے ان کے مال و دولت کی بابت دریافت فرمایا۔ جو وہ مدینہ سے لے کر نکلے تھے تو حیی بن اخطب کے داماد کنانہ بن ربیع نے اس کے بتانے میں پس و پیش کیا۔ لیکن ایک دوسرے یہودی کی نشاندہی پر مطلوبہ مال جنگل میں مدفون مل گیا۔ اس عہد شکنی کی بنا پر کنانہ بن ربیع کو تہ تیغ کردیا گیا اور اس کے خاندان کی عورتیں اور بچے غلام بنا لئے گئے۔ حیی بن اخطب کی بیٹی صفیہ اسیر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی عزت کو ملحوظ خاطر رکھ کر نیز دشمنوں پر اپنے اخلاق کا اثر ڈالنے کے لئے اسے آزاد کردیا اور دوسری مہربانی یہ فرمائی کہ اسے اپنے عقد میں لے لیا۔ چنانچہ یہود پر اس کا بہت اچھا اثر ہوا۔ نصف پیداوار کی شرط پر یہود سے مصالحت :۔ اب یہود نے دوسری درخواست یہ کی کہ ان کی زمینیں اور باغات انہیں کے پاس رہنے دیئے جائیں اس شرط پر کہ وہ ساری پیداوار کا نصف مسلمانوں کو ادا کردیا کریں گے۔ آپ نے کمال مہربانی سے ان کی یہ درخواست بھی منظور فرمالی۔ اور ساتھ ہی فرما دیا کہ اگر وہ مسلمانوں سے بد عہدی یا کوئی اور شرارت کریں گے تو یہ معاہدہ ختم کردیا جائے گا۔ چنانچہ جب فصل تیار ہوچکتی تو آپ عبداللہ بن رواحہ کو بھیجتے جو پیداوار کو دو حصوں میں تقسیم کردیتے پھر یہود کو اختیار دے دیتے کہ جونسا حصہ تم چاہو لے لو۔ یہودیوں پر اس فیاضانہ عدل کا یہ اثر ہوا کہ وہ کہتے تھے کہ زمین و آسمان ایسے ہی عدل پر قائم ہیں۔ زہریلی بکری سے آپ کو ختم کرنے کی سازش :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فیاضانہ سلوک کے باوجود یہود کا خبث باطن ختم نہ ہوا۔ خیبر میں قیام کے دوران سلام بن مشکم یہودی کی بیوی زینب بنت حارث نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دعوت کی درخواست کی جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرما لیا۔ یہ دراصل سب یہود کی ملی بھگت سے ایک سازش تیار کی گئی تھی کہ آپ کو کھانے میں زہر ملا کر ہلاک کردیا جائے۔ چنانچہ زینب نے آپ سے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کونسا گوشت پسند فرماتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : دستی کا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ کے ساتھ دعوت پر آئے۔ لیکن پہلا لقمہ ابھی حلق سے اترا ہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوگیا کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے۔ آپ کھانے سے رک گئے لیکن ایک صحابی بشیر بن براء دو چار لقمے کھاچکے تھے وہ جانبر نہ ہوسکے۔ اس موقعہ پر اگر کوئی اور فاتح ہوتا تو سب یہودیوں کو تہ تیغ کرا دیتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زینب سے پوچھا تو اس نے اعتراف جرم کرلیا اور بتایا کہ اس سازش میں سب یہود ملوث ہیں۔ آپ نے یہود کو بلاکر پوچھا تو انہوں نے بھی اعتراف کرلیا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ تم نے ایسا کیوں کیا تو کہنے لگے کہ اس لئے کیا کہ اگر آپ سچے نبی ہیں تو زہر آپ پر اثر نہیں کرے گا اور جھوٹے ہیں تو آپ سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ آپ مجسمہ رحمت تھے۔ لہٰذا آپ نے ان سب کا یہ قصور بھی معاف کردیا۔ فقط بشیر بن براء کے قصاص میں زینب بنت حارث کو قتل کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب اذا غدر المشرکون بالمسلمین) فتح خیبر کے اثرات :۔ خیبر کے معاملات سے فارغ ہو کر صفر ٧ ھ میں آپ نے فدک کی طرف توجہ فرمائی۔ کیونکہ یہ لوگ بھی جنگ پر تلے بیٹھے تھے۔ یہاں صرف ایک دن جنگ ہوئی دوسرے دن صبح ہی مجاہدین اسلام نے ان پر فتح پالی اور ان سے اہل خیبر کی شرائط پر مصالحت کرلی۔ تیماء کے یہود کو ان فتوحات کی خبر ملی تو انہوں نے خود ہی جزیہ کی شرط پر صلح کرلی۔ خیبر وغیرہ کی فتح سے یہود کا دم خم بالکل ختم ہوگیا۔ جب قریش مکہ کو یہ خبر ملی تو انہیں سخت صدمہ ہوا کیونکہ ان کا ایک مضبوط بازو کٹ گیا اور اب وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں تنہا رہ گئے۔ خیبر کے اموال غنائم اور اموال فئے: غزؤہ خیبر میں کچھ لڑائی کے ذریعہ اموال غنیمت حاصل ہوئے اور کچھ بے لڑے بھڑے بھی حاصل ہوگئے اور مال کثیر اور باغات مسلمانوں کے ہاتھ لگے حتیٰ کہ مسلمانوں کی معاشی حالت بہت بہتر ہوگئی اور مہاجرین نے انصار کو وہ باغات وغیرہ واپس کردیئے جو سلسلہ مواخات کے نتیجہ میں مہاجرین نے بطور شراکت انصار سے لے رکھے تھے اس غزوہ خیبر میں انہیں مجاہدین کو شریک کیا گیا جو غزوہ حدیبیہ میں آپ کے ہمراہ تھے اور خون پر بیعت کی تھی۔ انہیں میں یہ اموال غنیمت تقسیم کئے گئے۔ ان اموال میں حبشہ کے مہاجرین کا حصہ : البتہ ان اموال میں حبشہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے والے مہاجرین کو شریک کرلیا گیا تھا جو عین اموال غنیمت کی تقسیم کے موقعہ پر پہنچے تھے۔ بعض علماء نے یہ بھی وضاحت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین حبشہ کو جو مال دیا تھا وہ مجاہدین کے حصہ سے نہیں بلکہ اپنے حصہ خمس سے دیا تھا۔ جس کی تقسیم کلیتاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صوابدید پر منحصر تھی۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے یمن میں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے چلے گئے۔ تو میں اور میرے دو چھوٹے بھائی ابو بردہ اور ابو رہم بھی مدینہ کو ہجرت کی غرض سے نکلے۔ ہماری قوم کے کل باون یا ترپن آدمی تھے جو کشتی پر سوار ہوئے۔ وہ کشتی حبش کی طرف چلی گئی جہاں کا بادشاہ نجاشی تھا۔ وہاں ہم کو جعفر بن ابی طالب اور ان کے ساتھی ملے۔ جعفر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو یہاں بھیجا ہے اور فرمایا ہے کہ یہیں ٹھہرو۔ تو تم بھی ہمارے ساتھ ٹھہرو۔ ہم کچھ عرصہ وہاں رہے۔ پھر سب لوگ مل کر مدینہ آئے۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر فتح کیا تھا۔ آپ نے اموال غنائم میں سے ہمارا حصہ لگایا یا کہا کہ اس سے ہمیں عطا کیا۔ لیکن ہمارے سوا صرف اسے ہی آپ نے دیا جو فتح خیبر میں حاضر تھا، کسی غیر حاضر کو کچھ نہیں دیا۔ سو ہم کشتی والوں کے جو جعفر اور ان کے اصحاب کے ساتھ تھے۔ آپ نے ان کا حصہ لگایا۔ بعض لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم سے پہلے ہجرت کرچکے تھے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدہ اسماء بنت عمیس میں تکرار بھی ہوئی۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ ہم تم سے پہلے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے ہیں لہٰذا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف زیادہ حق رکھتے ہیں۔ اسماء بنت عمیس کو اس بات پر غصہ آگیا کہ تم تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے وہ تمہارا ہر طرح سے خیال رکھتے تھے اور ہم دیار غیر میں تھے اور ہجرت بھی دو دفعہ کی ہے اور کہنے لگیں میں ضرور یہ بات رسول اللہ سے پوچھوں گی۔ چنانچہ اسماء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ تم سے زیادہ حق نہیں رکھتے۔ کیونکہ ان کی ایک ہجرت ہے اور تمہاری دو بار ہجرت ہے۔ اسماء کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بات سے کشتی والوں کو انتہائی خوشی ہوئی۔ اور وہ مجھے باربار اس حدیث کو دہرانے کو کہتے تھے۔ (مسلم۔ کتاب الفضائل۔ باب فضائل جعفر و اسماء بنت عمیس و اھل سفینتھم۔۔ ملخصاً) اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حبشہ سے آنے والے مہاجرین کو یہ حصہ دو ہجرتوں کی وجہ سے ملا تھا۔