بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا وَزُيِّنَ ذَٰلِكَ فِي قُلُوبِكُمْ وَظَنَنتُمْ ظَنَّ السَّوْءِ وَكُنتُمْ قَوْمًا بُورًا
نہیں بلکہ تم نے یہ گمان کر رکھا تھا کہ پیغمبر اور مسلمانوں کا اپنے گھروں کی طرف لوٹ آنا قطعًا ناممکن ہے اور یہی خیال تمہارے دلوں میں رچ گیا تھا اور تم نے برا گمان کر رکھا تھا (١) دراصل تم لوگ ہو بھی ہلاک ہونے والے۔ (٢)
[١٤] منافقوں کا گمان کہ مسلمان بچ کر نہ لوٹ سکیں گے :۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ نہ تمہارا اللہ پر اعتماد ہے اور نہ اس کے وعدوں پر۔ تمہارا بس یہ گمان تھا کہ یہ مٹھی بھر لوگ بچ کر واپس نہ آسکیں گے۔ اور تمہارا یہ گمان ہی نہ تھا تمہاری آرزو بھی یہی تھی۔ تمہیں اس بات پر مطلق شرم نہ آئی کہ تم اللہ، اس کے رسول اور مومنوں کے معاملہ میں کس قدر بدباطنی سے ایسی سوچ سوچ رہے تھے۔ پھر دوسرا جرم یہ کر رہے ہو کہ طرح طرح کے جھوٹے بہانے بنا کر اور اللہ کے رسول سے استغفار کی التجا کرکے اپنی بدباطنی پر پردہ ڈالنا چاہتے ہو۔ تمہارا یہ خبث باطن اور جھوٹ آخر تمہیں تباہ کرکے رہے گا۔