سورة الفتح - آیت 4

هُوَ الَّذِي أَنزَلَ السَّكِينَةَ فِي قُلُوبِ الْمُؤْمِنِينَ لِيَزْدَادُوا إِيمَانًا مَّعَ إِيمَانِهِمْ ۗ وَلِلَّهِ جُنُودُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں (١) اور آسمانوں اور زمین کے (کل) لشکر اللہ ہی کے ہیں (٢) اور اللہ تعالیٰ دانا با حکمت ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤] صلح حدیبیہ میں مسلمانوں کے جذبات کی دو انتہائیں :۔ حدیبیہ کے مقام پر مسلمانوں میں دو متضاد کیفیتیں پیدا ہوئیں اور دونوں ہی اپنی انتہا کو پہنچیں اور دونوں ہی اللہ اور اس کے رسول کے حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کا نتیجہ تھیں۔ پہلے خون پر بیعت لی گئی جس سے مسلمانوں میں جنگ کے لئے اس قدر اشتعال پیدا ہوگیا کہ وہ کافروں کے مقابلہ میں سردھڑ کی بازی لگانے کے لئے تیار ہوگئے۔ اس کے بعد مسلمان دراصل صلح کے حق میں ہی نہ تھے چہ جائیکہ نہایت توہین آمیز شرائط پر صلح کے لئے آمادہ ہوں۔ ان باتوں پر سیدنا ابو جندل رضی اللہ عنہ کا واقعہ مزید اشتعال دلانے والا تھا جس سے سب مسلمانوں کے دل بھر آئے تھے اور اگر ان کے اختیار میں ہوتا تو وہ تو یہ چاہتے تھے کہ اسی وقت کافروں کی تکا بوٹی کردیں۔ اور اس وقت انہیں یہ قدرت بھی حاصل تھی۔ مگر جب انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھنڈا کیا۔ تو یکدم ان کے جذبات ٹھنڈے ہوگئے۔ ہر مسلمان جب دوسرے سے یہ پوچھتا کہ آج ایسی توہین آمیز شرائط پر صلح کیوں کی جارہی ہے تو ہر ایک یہی جواب دے دیتا اللہ و رسولہ اعلم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طبیعت کفار کے حق میں سب سے زیادہ جوشیلی تھی۔ انہوں نے کچھ اضطراب کا مظاہرہ ضرور کیا جیسا کہ مذکور دو احادیث سے واضح ہے۔ مگر وہ بھی نافرمانی کی حد کو نہ پہنچا اور سیدنا عمر کو اس بات کا عمر بھر افسوس بھی رہا۔ اللہ تعالیٰ یہ فرماتے ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کے جوش کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سکون نازل کیا گیا وہ اللہ کی طرف سے تھا۔ ورنہ عین ممکن تھا کہ حالات کچھ اور رخ اختیار کر جاتے۔ اگر کافروں کو کچلنا ہی مقصود ہوتا تو اللہ کے پاس مدد کے اور بھی کئی طریقے اور اسباب موجود تھے۔ البتہ ان دونوں انتہاؤں میں مسلمانوں کی آزمائش ہوگئی کہ وہ کس حد تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تابع رہتے ہیں۔ پھر جب وہ اس آزمائش میں پورے اترے تو یہی بات ان کے ایمان میں مزید اضافہ کا سبب بن گئی اور اللہ نے اپنے رسول پر بھی احسان فرمایا اور مسلمانوں پر بھی۔